مولانا مجیب الرحمن انقلابی
hmujeeb786@hotmail.com
خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہراءؓکے بارے میں حضور نے فرمایا کہ فاطمةؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ ایک اور موقعہ پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ ؓ (عورتوں میں سے) سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگی۔
احادیث مبارکہ میں حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں حضرت سیدہ فاطمة الزہراءؓ حضور کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہیں، آپ جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسنؓ اور سیدنا حضرت حسینؓ کی والدہ اور سیدنا حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔
ام المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیںکہ میں نے طوروطریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست، طرز گفتگو اور لب و لہجہ میں حضور کے مشابہہ حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا.... ایک اور موقعہ پر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور کے سوا سیدہ فاطمة الزہرائؓ سے سچا اور انصاف گو کسی کو نہیں دیکھا (الاستعاب) ام المو¿منین حضرت سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ رفتار و گفتار میں حضور کی بہترین نمونہ تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ فاطمہ ؓ خواتین امت کی سردار ہیں۔
ایک موقع پر حضور نے فرمایا کہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اس کو تنگ کیا اس نے اللہ کو تنگ کیا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کریں۔مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضور کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی تو حضرت سیدہ فاطمہ ؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں....
حضرت فاطمة زہراؓ کے بہن بھائیوں میں حضرت سیدہ زینبؓ، حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ، حضرت قاسمؓ، حضرت طاہر طیبؓ اور ابراہیمؓ شامل ہیں۔ مشہور روایت کے مطابق فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سعد ابن ابی وقاصؓ کی ترغیب اور مشورہ پر حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کے ساتھ نکاح کیلئے حضور کو پیغام بھیجا....حضور نے اس کو فوراً قبول فرما لیا اور پھر حضور نے حضرت سیدہ فاطمہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بزبان خاموشی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ ایک اور روایت کے مطابق انصارؓ اور مہاجرینؓ کی ایک جماعت نے حضرت علی المرتضیؓ کو حضرت سیدہ فاطمہؓ کیلئے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ حضرت علیؓ، حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حرفِ مدعا زبان پر لائے، حضور نے فوراً ”اھلاً و مرحبا“ فرمایا....
حضور نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس ”حق مہر“ ادا کرنے کیلئے بھی کچھ ہے؟ سیدنا حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ہے، حضور نے فرمایا کہ گھوڑا تو جہاد کیلئے ضروی ہے، زرہ کو فروخت کر کے اس کی قیمت لے آﺅ....۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے یہ زرہ فروخت کرنے کیلئے صحابہ کرامؓ کے سامنے پیش کی.... خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ 480 درہم میں خریدلی اور پھر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ بھی حضرت علی المرتضیٰؓ کو ہدیةً، واپس کر دی، حضرت علیؓ یہ رقم لیکر حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی....
حضور نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے فرمایا کہ اس رقم میں سے دو تہائی خوشبو وغیرہ پر صرف کر دو اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیائے خانہ داری پر خرچ کرو....۔ پھر حضور نے حضرت انس بن مالکؓ کو حکم دیا کہ جاﺅ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ اور دیگر مہاجرین و انصار کو مسجد نبوی میں بلا لاﺅ.... خود حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اس سے پہلے حضور پر وحی آنے کی سی کیفیت طاری ہوئی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل امین ؑ اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کا نکاح سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ سے کر دیا جائے۔
جب صحابہ کرامؓ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے تو حضور منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ”اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ فاطمہ بنت محمد کا نکاح علی بن ابی طالبؓ سے کر دوں، میں تمہارے سامنے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔“ اس کے بعد حضور نے خطبہ نکاح پڑھا اور دعائے خیر فرمائی۔ صحیح روایت کے مطابق یہ نکاح 3ھ میں ہوا اور فوری رخصتی عمل میں آئی (از کتاب سیرت فاطمة الزہراؓ، صفحہ نمبر ۹۴)
دوسرے روز ”ولیمہ“ کیا گیا۔ دعوتِ ولیمہ میں دسترخوان پر کھجور، پنیر، زمان جو اور گوشت تھا، حضرت اسمائؓ فرماتی ہیں کہ یہ اس زمانہ کا بہترین ولیمہ تھا۔
حضور نبی کریم نے اپنی لختِ جگر، سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کو جو جہیز دیا۔ مختلف روایتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے،
(۱) ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی (۲) ایک نقشی تخت یا پلنگ (۳) ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی (۴) ایک مشکیزہ، (۵) دو مٹی کے برتن (یا گھڑے) پانی کیلئے (۶) ایک چکی (ایک روایت کے مطابق دو چکیاں) (۷) ایک پیالہ (۸) دو چادریں (۹) دو بازو بندنقرائی (۱۰) ایک جائے نماز
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ”مدارج النبوة“ میں رقمطراز ہیں کہ حضور نے حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرما دی تھی، چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے مثلاً چکی پیسنا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کے ذمہ تھے، اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ سیدنا حضرت علیؓ کے ذمہ تھے اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہو گیا تھا۔
حضور، حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے، تقریباً ہر روز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش فرماتے، اگر حضور کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ اس میں سے کچھ نہ کچھ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کو بھی بھجواتے تھے۔
ام المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ ازراہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبت سے آپ کے سر مبارک کو چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں (ابوداﺅد) حضور کے غلام حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ حضور جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے (مدارج النبوة)
ایک بار حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کو بخار آ گیا، رات انہوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی، فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیدہ فاطمةؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، میں نے کہا کہ فاطمةؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جاﺅ، حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جاﺅں تو کچھ پروا نہیں ہے، میں نے وضو کیا نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کیلئے اور چکی پیسی تمہاری اطاعت و فرمانبرداری اور بچوں کی خدمت کیلئے.... حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کیلئے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کیلئے نہیں بلاتی تھیں.... کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں.... ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی،حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ کو عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف تھا....
خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں۔ مسجد نبوی کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالم کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں.... ان میں عقوبت اور محاسبہ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آ جاتا تھا.... تلاوتِ قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آ جاتیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی تھیں.... عبادت کرتے وقت سیدہ فاطمہؓ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا.... اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضا جوئی اور سنت نبوی کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی.... وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہو کر رہ گئی تھیں اسی لیے حضرت فاطمةؓ کا لقب ”بتول“ پڑ گیا تھا....
حضور جہاں خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ سے محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے وہاں آپ جگر گوشہ بتولؓ سیدنا حضرت حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سے بھی بے پناہ شفقت و محبت کا اظہار فرماتے حضور حسنین کریمینؓ کو گود میں اٹھاتے سینہ مبارک پر کھلاتے، کاندھے پر بٹھاتے اور کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے.... سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسنؓ سینہ سے لے کر سرمبارک تک حضور ؓ کے مشابہہ تھے اور سیدنا حضرت حسینؓ قدموں سے لے کر سینہ تک حضور کے مشابہہ تھے اور آپ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے....
حضرت ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور اقدس کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنین کریمینؓ حضور اقدس کے سینہ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت فرماتے ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں....
ایک موقعہ پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا (ابن ماجہ) ایک مرتبہ حضور نے سیدنا حضرت حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ نے خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ سے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں کہ ان کا رونا مجھے غمگین کر دیتا ہے....
جب جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسینؓ پیدا ہوئے حضور نے ان کے کان میں اذان دی، اپنے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں سے شہد چٹایا، اپنا لعاب مبارک ان کے منہ میں داخل کیا بے انتہا خوشی و مسرت کا اظہار کیا، دعائیں دیں، حسینؓ نام رکھا، پھر حضرت سیدہ فاطمہؓ کو ”عقیقہ“ کرنے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی آپ نے تلقین فرمائی....
حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ حضرت سیدہ فاطمةؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا تو حضرت علیؓ نے آبدیدہ ہو کر جواب میں فرمایا ”فاطمةؓ جنت کا ایک ایسا خوشبودار پھول تھا کہ جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا“ آپؓجودو سخا کی پیکر تھیں ایک دفعہ کسی نے حضرت سیدہ فاطمةؓ سے پوچھا کہ چالیس اونٹوں کی زکوٰة کیا ہو گی سیدہ فاطمہ ؓ نے فرمایا کہ تمہارے لئے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے ہی راہ خدا میں دیدوں۔ ایک مرتبہ حضور نے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہے۔ حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ نے جواب میں عرض کیا کہ عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی اور صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔
حضرت سیدہ فاطمة الزہراؓ پردہ کی نہایت ہی پابند اور حد درجہ حیادار تھیں.... ایک مرتبہ سیدہ فاطمة الزہراؓ، حضور کی خدمت اقدس میں اس غرض سے حاضر ہوئیں کہ آپ سے کوئی لونڈی طلب کریں لیکن فرطِ حیا سے دل کی بات زبان پر نہ لا سکیں اور بغیر کچھ کہے واپس آ گئیں.... شرم و حیا کی انتہا یہ تھی کہ عورتوں کا جنازہ بغیر پردہ کے نکلنا پسند نہ تھا.... اسی بنا پر اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میرے جنازہ پر کھجور کی شاخوں کے ذریعہ پردہ ڈال دیا جائے اور جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے....
مشہور روایت کے مطابق حضور کے وصال کے ۶ چھ ماہ بعد خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمة الزہرائؓ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہنے کے بعد ۳ تین رمضان المبارک ۱۱ھ کو منگل کی شب آپ کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر مبارک علماءنے28،یا 29 سال بیان کی ہے۔