نجم سیٹھی نے دورہ ویسٹ انڈیز کے دوران ٹیم کے معاملات کو خود دیکھنے کیلئے کیریبئن جزائر جانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ابتدا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ اپنے سکول کی کرکٹ ٹیم کے افتتاحی بلے باز پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین نجم سیٹھی کے حوالے سے گذشتہ روز کے اخبارات میں چند دلچسپ ”سرخیاں“ شائع ہوئی ہیں جو کچھ یوں ہیں۔ ایک مقامی اخبار کی سرخی ہے ”ذکاءاشرف کی طرح نجم سیٹھی بھی غیر ملکی دورے کریں گے“۔ایک اخبار لکھتا ہے ”نجم سیٹھی کو چند روز میں ہی پی سی بی کی ہوا لگ گئی“۔ ایک اخبار نے سرخی نکالی ہے ”نجم سیٹھی کو بھی پی سی بی ایگزیکٹو بورڈ نے شیشے میں اتار لیا“۔ پی سی بی گورننگ بورڈ کے اجلاس میں ممبران نے قائم مقام چیئرمین پر اعتماد کا اظہار کر کے انہیں سیاہ سفید کا مالک بنا دیا ہے۔ یہ وہی گورننگ بورڈ جس نے ذکاءاشرف کو بند کمرے میں چار سال کے لئے بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا تھا۔ اور ان کے تمام اقدامات کا تحفظ اور دفاع بھی کیا۔ اب وہی گورننگ بورڈ قائم مقام چیئرمین کی ہمنوائی میں مصروف ہے۔ ویسے تو گورننگ بورڈ میں موجود افراد یقیناً کھیل کی اچھی خاصی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں لیکن ان کے مشوروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ”باس“ کے سامنے اکثر مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے ”چیف“ کی خوشنودی کے لئے وہی بات کرتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیلے جانیوالے میچز کے دوران نجم سیٹھی کا وہاں کیا کام ہے؟ کھیل کے کون سے ایسے معاملات ہیں جو انہوں نے خود دیکھنے ہیں۔ اس عمل، بیان اور ارادے سے تو محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے ٹیم کے اندرونی معاملات خاصے خراب ہیں اور عبوری بورڈ چیف کو اپنے ٹیم منیجر، کوچ، سکیورٹی منیجر اور ٹیم انتظامیہ کے دیگر افراد پر بھی اعتماد و اعتبار نہیں ہے۔ مسائل پاکستان میں ہیں، پاکستان کی کرکٹ عدالتوں میں پھنسی ہوئی ہے اور سیٹھی صاحب ویسٹ انڈیز کی یاترا تیاریوں میں مصروف ہیں۔ عجب تماشا ہے۔ چیئرمین ایک طرف اخراجات کی کمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں تو دوسری طرف خود ہی غیر ضروری اخراجات میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کفایت شعاری کا سبق دوسروں کو دینا اچھی بات ہے لیکن اسکا عملی مظاہرہ خود کیا جائے، شروعات اپنی ذات سے کی جائے تو اچھی مثال قائم ہوتی ہے اور پھر بیانات داغنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بورڈ آفیشلز کے اہلخانہ سرکاری خرچ پر دوروں پر پابندی خوش آئند کرکٹ بورڈ کے اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافے کی سوچ بھی اچھی ہے لیکن مولا جٹ بننے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔چڑیا والے صاحب اب ویسٹ انڈیز جا رہے ہیں تو کیا جب تک وہ پی سی بی کے چیئرمین رہیں گے ہر دورے پر ٹیم کے معاملات دیکھنے کے لئے ساتھ جائیں گے یعنی مالِ مفت دلِ بے رحم........!! بورڈ کے ملازمین کی تعداد پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن سوچ سمجھ کر، کسی بھی شخص کی موجودگی کو کارکردگی سے مشروط کر دیا جائے، کسی کو زیادہ پیسے دینا بری بات نہیں ہے لیکن بھاری تنخواہ کے بدلے میں مناسب کام نہ لینا اور کام چوری کرنے والوں کو برداشت کرنا اصل خرابی ہے۔ قائم مقام چیئرمین یہ ذمہ داری مستقل سنبھالنے کے بھی خواہشمند نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ کام بھی وہ عوامی اصرار اور گورننگ بورڈ کے مشورے سے کریں گے۔ یعنی ہر وہ کام جس میں ان کا ذاتی فائدہ ہو گا وہ ”شاہ پرستوں“ کے مشورے اور ”خواص“ جنہیں وہ عوام سمجھتے ہیں ان کے پرزور اصرار پر ہو گا۔ نجم سیٹھی اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کریں۔ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ گورننگ بورڈ نامی برائی کی جڑ کے بارے میں بھی سوچیں۔ یہ چند افراد شاید ہی کبھی ڈھنگ کا مشورہ دیں۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ چیئرمین صاحب خود بھی کرکٹ کے معاملات سے ناواقف ہیں۔ مجبوراً انہیں ان ”صاحب اثر و صاحب علم“ افراد کی باتیں ماننا پڑتی ہیں۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ انہوں نے ہر آنے والے کو ”یس سر“ ہی کہا ہے۔