قومی خزانے پر، بوجھ کم کرنے کے لئے، وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے، سرکاری افطار پارٹیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ چنانچہ اِس بار وزیرِ اعظم ،وفاقی وزرائ، مُشیران اور دوسرے حکومتی عہدیداران، سرکاری خرچ پر، افطار پارٹیوں میں مہمانِ خصوصی نہیںہوں گے،لیکن اِس طرح تو، ماہِ رمضان میں،اکثر لوگ،اپنے حُکمرانوں کے۔” اقوالِ زریں“۔ سے محروم ہو جائیں گے۔میری تجویز ہے کہ بے شک سرکاری خرچ پر نہ سہی لیکن وزیرِ اعظم اور اُن کے رُفقائے کار ،اپنے عقیدت مندوں کے خرچ پر، افطار پارٹیوں سے لازماً خطاب کر یں ۔ مولانا کوثر نیازی (مرحوم) جب وفاقی وزیر نہیں رہے تھے تو ایسا ہی کرتے تھے۔ وزیرِ اعظم ، وفاقی وزراءاور مشیران،جب اپنے عقیدت مندوںکے زیرِ اہتمام،روزہ افطار کریں گے تو، اُنہیںاُتنی ہی خُوشی ہوگی جِتنی کہ۔ ”کِیڑی کے گھر نارائن“ ۔کے آجانے سے۔ کِیڑی کو ہوتی ہے۔تاہم اِس بار بھی ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود نے، اپنی 5سالہ روایت قائم رکھّی اور اپنے خرچ پر، ڈیڑھ دو سو دوستوں کا، پہلا روزہ کھُلوا کر ثواب لُوٹ لِیا۔سیّد انور محمود، اِس طرح کی۔”شاہ خرچی“۔ کے متحمل اِس لئے ہو سکے ہیںکہ، انہوں نے، ریٹائرمنٹ کے بعد، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مسائل کے حل کے لئے اپنا۔"Consultancy and Advocacy"۔کا بہت بڑا ادارہ بنا رکھا ہے، جِس میں کئی ریٹائرڈ سول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس، خدمات انجام دیتے ہیں۔ پہلے روزے پر، سیّد صاحب کی طرف سے دعوتِ افطار اور عید الفطر کے بعد عید مِلن پارٹی۔ ایک جشن، کی صورت ہوتی ہے۔ اگر یہ دعوت ماہِ رمضان میں نہ ہوتی تو، اِسے حال ہی میں، مقرر کئے گئے وفاقی ٹیکس محتسب ،چودھری عبدالرﺅف کی۔ ”رسم رُونمائی“۔ ہی سمجھا جاتا ۔ مَیں نے تو، چودھری صاحب کو دُور سے ہی دیکھا ، لیکن پتہ چلا کہ میڈیا میں، اُن کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔دعوتِ افطار میں، دو سابق وفاقی وزرائے اطلاعات و نشریات ، مسٹر مشاہد حسین سیّد اور مسٹر محمد علی دُرانی اور 4سابق وفاقی سیکریٹریز برائے اطلاعات و نشریات، خواجہ اعجاز سرور، سلیم گُل شیخ، اشفاق احمد گوندل اور منصور سہیل کے علاوہ ، ریٹائرڈ (سویلین اور فوجی) بیوروکریٹس، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سینئر اور جو نیئر صحافی، اینکر پرسنز، وفاقی وزارتِ اطلاعات اور اُس سے ملحقہ اداروں کے ،تقریباً سبھی افسران۔(خواتین و حضرات)۔ موجود تھے۔20۔"Round Tables"۔ (گول میز) ۔ہر میز کے گِرد دس ،دس کُرسیوں پر رونق افروز مہمان۔ شادی کا سا ماحول تھا۔ مہمانوں کی گفتگو ، محض۔"Table Talk" ۔نہیں تھی۔ بلکہ وہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے مباحثہ اور مناظرہ کر رہے تھے۔ہر گول میز کانفرنس (دعوت میں بھی)۔ہر کُرسی نشین کی حیثیت مساوی ہوتی ہے۔کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔دعوتِ افطار میں، ہر مہمان نے۔ اپنی میز سے اُٹھ کر، دوسری میزوں پر جانے کی آزادی سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ مَیں نے بھی، 6 میزیں تبدیل کر کے، 54مہمانوں کو۔ اپنا۔”میز بدل بھائی یا بہن“۔ بنایا۔اِس طرح کے عمل کو۔”لوٹا اِزم“۔ نہیں سمجھا جاتا۔ گفتگو کے دوران ہر مہمان نے بے روزگاری ، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کو عذاب قرار دیا اور دہشت گردی /خُود کُش حملوں کو عذابِ الیم۔لندن میں، ایم کیو ایم کے قائدِ جناب الطاف حسین کے لئے بڑھتی ہوئی مشکلات پر بات ہوئی۔قتل و غارت کو روکنے کے لئے، کراچی کو فوج کے حوالے کرنے پر بحث ہوئی۔ پھر کہا گیا کہ۔”پیپلز پارٹی بُرا منائے گی“۔ایک مہمان نے کہا۔ پیپلز پارٹی، بُرا مناتی ہے تو منائے۔ ہمیں کراچی کو تو، بچانا ہی ہوگا“۔مِصر میں فوج کی طرف سے صدر مُرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے پر، ایک مہمان نے کہا کہ۔ ”پاکستان میں جِس طرح خطرناک حالات پیدا ہو گئے ہیں، اگر فوج اقتدار پر قبضہ کر لے تو ہم اُس کا کیا بگاڑ لیں گے؟“۔دوسرے نے کہا۔ ”طالبان کے خلاف بے رحمانہ فوجی آپریشن ہونا چاہیئے، یہ لوگ جمہوریت کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہیں“۔ دوسرے نے کہا۔ ”لیکن فوج میں بھی تو طالبان سے ہمدردی رکھنے والے موجود ہیں۔ آپریشن کیسے ہوگا؟“۔بہرحال،دہشت گردی اور خُود کُش حملوں سے ،ہر شخص پریشان تھا۔ سیّد انور محمود سے جب بھی تفصیلی ملاقات ہوتی ہے تو وہ،محترم مجید نظامی۔جناب محمود علی(مرحوم)بانی صدر، تحریکِ تکمیلِ پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔” چکما قبیلہ “۔کی سرداری چھوڑ کر،پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے ،آنجہانی (تاحیات ) وفاقی وزیر راجا تری دیو رائے کا ذکر ضرور کرتے ہیںاور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور پاکستانیوں (بہاریوں)۔ کی حالتِ زار کا بھی۔ وہ کہتے ہیںکہ۔ حُب اُلوطنی کا سبق کوئی”"Living Legend" جناب مجید نظامی سے سیکھے کہ،اُن کے سوا، بہاریوں کو پاکستان لانے کے لئے کلمہءحق کوئی بلندنہیں کرتا“۔سیّد انور محمود کا بیٹا بلال محمود ۔کینیڈا اور بیٹی مدیحہ۔امریکہ سیٹل ہیں،لیکن وہ کہتے ہیں کہ۔”مَیںپاکستان چھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔میرے خاندان نے تو،دو بار ہجرت کی۔ایک بار۔ بہار سے مشرقی پاکستان اور دوسری بار ۔ بنگلہ دیش سے پاکستان“۔بیگم ،سیّدہ نیّر محمود،اُردو اور پنجابی کی شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔دورانِ اِفطار ، ایک نوجوان نے مجھے ایک لفافہ دیتے ہوئے کہا کہ ۔”یہ آپ کے لئے، بیگم نیّر محمود نے بھجوایا ہے“۔میرے ساتھ بیٹھے ، اشفاق احمد گوندل نے کہا۔”لَو جی! اثر چوہان صاحب نُوں، لفافہ وی آگیاجے“۔گوندل صاحب نے مُجھ سے لفافہ لے کر کھولا تو، اُس میں ، محترمہ نیّر محمود کی پنجابی کہانی۔”روگ اولڑے“۔ ( نرالے یاانوکھے دُکھ)۔کا مسودہ تھا ۔ ہم لوگوں کے ، جو مرتے دم تک پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں،دُکھ سانجھے ہیں۔پنجابی کے پہلے شاعر،بابا فرید شکر گنج ؒ کہتے ہیں۔۔۔
”مَیں جانیا دُکھ مُجھی کو، دُکھ، سبھائے جگ۔۔۔ اُچّے چڑھ کے دیکھیا، تاں گھر گھر ،ایہا اگ“
یعنی۔ میں نے جانا تھا کہ دُکھ صِرف مُجھ کو ہی مِلا ہے، لیکن جب میں نے بلندی پر چڑھ کردیکھا تو ،مجھے ہر گھر میں دُکھ ہی دکھائی دِیا۔دعوتِ افطار میں۔میزبان اور مہمانوں کاسب سے بڑا دُکھ یہی تھا کہ وہ ابھی تک پاکستان کو قائدِ اعظمؒ ، کے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں نہیں دیکھ پائے، لیکن وہ اِس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ۔”پاکستان ۔آمریت یا طالبان کی خواہش کے مطابق ۔”خلافت“۔ کے لئے نہیں بنا۔بلکہ قائدِ اعظم ؒ کے فرمان کے مطابق۔ایک ،اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت کی شکل اختیار کرنے کے لئے۔سیّد انور محمود کی طرف سے ترتیب دی گئی۔دعوتِ اِفطار نے فی الحقیقت۔"Food for Thought"۔(سوچنے کے لئے مواد)مہیا کِیا۔