لندن (بی بی سی) پاکستانی طالبان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہوں نے شام میں جاری ’جہاد‘ پر نظر رکھنے کے لئے وہاں اپنا اڈا قائم کیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ شام میں یہ اڈہ افغانستان میں لڑائی میں حصہ لینے والے ان عرب نژاد جنگجوو¿ں کی مدد سے قائم کیا گیا ہے جو حال ہی میں شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لئے گئے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے ایک رکن کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران جنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کم از کم 12 ماہر شام گئے ہیں۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے ان اطلاعات پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف پرتشدد مہم کے دوران اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور طالبان کی شام میں دلچسپی کی وجہ ممکنہ طور پر فرقہ وارانہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں متعدد شدت پسند گروپوں کی بنیاد فرقہ وارانہ ہے جن کے خیال میں شام کی اکثریتی سنّی العقیدہ آبادی شام کے شیعہ حکمرانوں کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہو رہی ہے۔ طالبان کے اہم رہنما اور شامی اڈے کے رابطہ کار محمد امین نے بتایا کہ ’جہاد‘ کی نگرانی کے لئے چھ ماہ قبل شام میں ایک سیل قائم کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس سیل کو تحریکِ طالبان اور اس کے حامی شدت پسند گروپوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ سیل شام کے تنازع کے بارے میں ’معلومات‘ پاکستان میں موجود طالبان کو بھیجتا ہے۔ محمد امین کے مطابق اس سیل میں شامل افراد کی مدد ’شام میں ہمارے وہ دوست کرتے ہیں جو ماضی میں افغانستان میں لڑتے رہے ہیں۔‘ طالبان رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان سے درجنوں افراد شام میں حکومتی فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے منتظر ہیں لیکن فی الحال وہاں سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ انہیں ابھی افرادی قوت کی ضرورت نہیں۔‘ خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان سے جنگجو کشمیر، وسطی ایشیا اور بلقان جا کر وہاں ہونے والی لڑائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
پاکستانی طالبان نے شام میں بھی اپنا اڈا قائم کر لیا : بی بی سی
Jul 13, 2013