عمران خان نے بڑے وثوق سے کہا کہ ان کو گرفتار کیا گیا تو ن لیگی حکومت کا خاتمہ ہو جائیگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی پاکستان آمد سے قبل ایسا دعویٰ کرتے تھے۔ وہ تو قوم کو اپنی آمد کے ساتھ ہی انقلاب کی نوید سنا رہے تھے۔ گزشتہ سال جب انہوں نے اسلام آباد میں دھرنے کی کال دی اوردھرنے کے خاتمے تک یہی تاثر دیتے رہے کہ کوئی قوت ان کی پشت پر ہے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کا حکم دیا تو ڈاکٹر صاحب نے 15 جنوری کو اعلان کیا ” قوم جشن منائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے آدھا کام ہو گیا، باقی کل ہو جائیگا۔“ اس سے لوگ سمجھے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں عدلیہ بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہے۔ گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ” اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ نہیں ہے۔۔۔“ فوج خواجہ آصف جیسوں سے پوچھ کر کسی کے آگے پیچھے نہیں ہوتی البتہ موجودہ حالات میں فوج نے اپنے کام سے کام ضرور رکھا ہے لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کے دعوﺅں سے قوی تاثر ملتا ہے کہ انکی کہیں نہ کہیں سے ڈور ہلتی ہے۔ ان حالات میںخودکار طریقے سے خیال آتا ہے کہ فوج کی پشت پناہی کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا جس کے عمران خان اور طاہرالقادری دعوے کرتے ہیں۔ فوج طاہرالقادری کے سر پر تاج کیوں سجائے گی اور عمران خان کے لانگ مارچ سے حکومت کیوں گرائے گی۔ انکے پاس حکومت گرانے کے کئی جواز اور بہانے موجود ہیں۔ ن لیگ کی پالیسیوں سے نظر آتا ہے کہ وہ فوج سے انتقام لے رہی ہے۔ فوج کے مقابلے میں جیو کی حمایت اور ضربِ عضب میں سردمہری اس کے ثبوت ہیں۔ مشرف تنازع اس پر بھی سِوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج لی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ طاقت ور ہے‘ اتنی طاقت ور کہ یوسف رضا گیلانی بھی کہہ اٹھے کہ مشرف کو رہا کرو۔ اسٹیبلشمنٹ نرم خو ہے‘ نواز شریف کو سامان سمیت جدہ بھجوا دیا‘ زرداری کو مقدمات کے باوجود ملک سے باہر جانے دیا۔ اسٹیبلشمنٹ تند خو ہے نواز شریف لندن سے واپس آئے تو پھر جدہ بھجوا دیا ۔ اسٹیبلشمنٹ تنگ دل ہے نواز شریف کو عمر قید کی سزا دلا دی۔ اسٹیبلشمنٹ سنگ دل ہے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔ عمران اور طاہرالقادری شاید حکومت اور فوج میں دوری کو بھانپ کر اسٹیبلشمنٹ کو اپنی اپنی حمایت کایکطرفہ یقین دلا رہے اور فوج کو بزعم خویش اپنی پشت پر سمجھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فوج کی ”اس قسم کی“ سپورٹ ان کے ساتھ ہو۔ ایک فوجی چھٹی پر اپنے گاﺅں گیا۔ اس نے یونٹ سے گاﺅں تک کا سفر وردی میںطے کیا تاکہ بس ویگن والا کرایہ نہ مانگے۔ ایک دن وہ چودھری یا نمبردار کے ڈیرے پر چلا گیا۔ وہاں گاﺅں کے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اسکے سامنے کئی دکھ درد کھول کر رکھ دیئے۔ فوجی نے مسائل سنے اور پُراعتماد لہجے میں کہا۔ ”عوام کو جو بھی مسئلہ درپیش ہے چودھری بوٹا کو بتا دیں۔ میں واپس جا کے تمام مسائل حل کرانے کی منظوری لے لوں گا۔ ایم این اے، ایم پی اے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی“۔ اگلے دن لوگوں نے پورے علاقے میں دھوم مچا دی کہ فوج چودھری بوٹے کے ساتھ ہے۔ بوٹا خود بھی انقلاب برپاکرنے کے دعوے کرنے لگا۔ لگتا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی چھٹی پر آئے کسی فوجی نے تھپکی دی ہوئی ہے۔ تاہم اسکے باوجود بھی حکومت کے غبارے سے ہوا خارج ہو رہی ہے۔ اسے اپنا تخت لرزتا نظر آتا ہے۔
جمہوریت جمہور کے اعتماد کا نام ہے۔ یہ اعتماد پانچ سال کیلئے ہوتا ہے۔ حکمران اگر وطن کے بنیادی مفادات کیخلاف کام شروع کر دیں تو پانچ سال تو کیا ایک سال بھی مکمل نہیں کر سکتے۔ نکسن چار سال کیلئے منتخب ہوئے ، واٹر گیٹ سکینڈل کے باعث آئینی مدت پوری کئے بغیر وائٹ ہاﺅس سے استعفیٰ دے کر نکل گئے۔ یوں تو یوسف رضا گیلانی کو بھی پانچ سال کیلئے منتخب کیا گیا تھا وہ چار سال بعد گھر چلے گئے۔ نواز شریف درست کہتے ہیں کہ عوام نے ان کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا۔ کیا ان کو آج بھی عوام کا اعتماد حاصل ہے؟ زرداری سرکار بھی یہی کہتی تھی‘ بالآخر اس نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی لیکن ملک کنگال ہو گیا۔ مسلم لیگ ن کی گو زرداری گو تحریک کامیاب ہو جاتی تو ملک کے کئی اثاثے محفوظ رہ جاتے۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ آج بھی گزشتہ دور کی طرح کرپشن جاری ہے اگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سال پورے کر لئے تو قومی وسائل کا اجاڑا ہو جائیگا۔ اپوزیشن کے تحفظات پر کوئی مدلل جواب دینے کے بجائے وزرائے کرام اپنا اصل کام چھوڑ کر مسخرہ پن پر اتر آتے ہیں۔
عمران اور قادری کو اپنے اپنے ایجنڈے کیلئے فوج کی سپورٹ کے تاثر میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی ۔ نواز شریف کی جمہوری حکومت کو عمران خان اور طاہرالقادری سے تو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ خطرہ ان کو عوام کُش پالیسیوں اور احمق مشیروں کے فوج کے ساتھ محاذ آرائی پر اکسانے اور میاں صاحب کے ان مشوروں پر عمل سے ہو سکتا ہے۔ہمارے ہاں عموماً ایک سال بھی جمہوری حکومت کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ جمہوری حکومتوں کی عوامی توقعات کے مطابق کارکردگی کا نہ ہونا ہے۔ حکمران اپنے وعدے بھول کر اور منشور کو نظرانداز کرکے جمہوریت کو آمریت اور ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی موجودہ حکمران کر رہے ہیں۔ اس سے جمہوریت نہیں ذاتی کاروبار ہی مستحکم ہوں گے ۔
سید خورشید شاہ نے ماضی کے گڑھے سے جمہوریت کی مضبوطی کا ایک یہ حل تلاش کیا ہے کہ حکومت کی آئینی مدت 4 سال کر دی جائے۔ یہ حل خوب ہے لیکن جن سے اس عمل کی توقع کرتے ہیں وہ اس پر فطرتاً آمادہ نہیں ہونگے۔ بینظیر بھٹو نے 93ءکے انتخابات میں دو دلکش اعلانات فرمائے ۔ ”ہم حکومت میں آ کر ہر ضلع کو صوبہ بنا دینگے۔ حکومتی مدت 4 سال کر دی جائیگی۔“ پیپلز پارٹی الیکشن جیت گئی اور دونوں وعدے بھلا دئیے۔ اپنی بادشاہت میں ایک سال کمی دل گردے کا کام ہے۔ یہ کام بینظیر بھٹو کر سکیں نہ نواز شریف کرینگے۔ گو محترمہ کی حکومت اڑھائی سال بعد ٹوٹ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ مئی 2013ءتک کے دور میں بھی کم و بیش یہی مایوس کن حالات تھے جو اب ہیں۔ اس وقت خورشید شاہ کو جمہوریت کے استحکام کا خیال نہیں آیا بلکہ انکے ساتھی حالات کی خرابی کا جواز پیش کرکے آئین کی وہ شقیں کھول کھول کر بیان کرتے تھے جن کے تحت انتخابات کو ایک سال کیلئے معرض التوا میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اپنے لئے 6 سال نواز شریف کیلئے 4 سال! میاں صاحب یہ تجویز مان کر نہ دیں گے خواہ اپنے کارناموں اور کمالات کے سمندر میں اقتدار کی کشتی ڈیڑھ دو سال ہی میں ڈوب جائے۔ 4 سال کی تجویز بجا ہے یہ اسی صورت قابل ہے کہ آج قانون سازی کرکے اگلے الیکشن سے اس کا اطلاق ہو۔
”اسٹیبلشمنٹ اور فوجی کی تھپکی“
Jul 13, 2014