اچھی خبر ہے کہ اب پاکستان کے ٬٬بچھوﺅں،، اور ٬٬کرلوں،، کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانی خوش تھے کہ ان کے گدھے قیمتی ہونے میں ہمارے پاس گدھے و قیمتی نہیں البتہ ہمارے ٬٬حشرات الارض،، دنیا میں مقبول ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں نے اسلام آباد میں پاکستانی بچھوﺅں اور کرلوں کی خریداری کے لئے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ خبر کے مطابق غیر ملکی ٬٬سیانے،، ایک ایک بچھو کروڑوں میں خریدنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ اس ٬٬آفر،، کو سنتے ہی کئی ٬٬دیوانے،، بچھوﺅں کی تلاش میں ویرانوں کی طرف نکل گئے ہیں۔ کبھی ٬٬دیوانے،، بہار آتے ہی دشت اور ویرانے کی طرف بھاگا کرتے تھے مگر یہاں بات کروڑوں کی ہے کروڑوں کے خواب دیکھنے والے دشت کی خاک چھاننے پر مجبور ہو گئے ہیں بتایا جاتا ہے کہ 118 گرام کا بچھو دو کروڑ 85 لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے۔ بعض قیمتی بچھو دو ‘ اٹھارہ اور چھتیس لاکھ روپے میں بھی خریدے جا رہے ہیں واللہ اعلم باالصواب ۔ یہ بھی سنا ہے کہ بچھوﺅں کے علاوہ ایک ایک کرلہ بھی دو دو لاکھ تک فروخت ہو رہا ہے۔ ایسے ہی بلیوں اور طوطوں کو بھی بیرون ممالک ایکسپورٹ کرنے کی خبریں آ رہی ہیں یہ بچھو اور کرلے وغیرہ کینسر اور دیگر مہلک امراض کی ادویات کی تیاری میں کام آتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی اس مانگ کے پیش نظر اب ٬٬بچھو پال فارم،، بھی بننے لگے ہیں یہ بچھو ریگستانی اور پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں ہم اس خبر سے خوش ہیں کہ چلو پاکستان کے بچھوں کہیں تو خدمت خلق کے کام آ رہے ہیں۔
کسی نے بچھو نے پوچھا! بھائی بچھو! تم سردیوں میں کیوں دکھائی نہیں دیتے،، تو بچھو بولا! ٬٬گرمیوں میں میری کونسی عزت ہوتی ہے سردیوں میں بھی آپ کو دکھائی دینے لگوں،، بے روزگار نوجوان اب بچھوﺅں کے تعاقب میں نکلیں گے تو گرمیوں میں بھی بچھوﺅں کا دیدار مشکل سے ہوگا۔ اگر پاکستانی بچھوﺅں اور کرلوں کی اس قدر مانگ ہے تو ہماری حکومت کو بھی اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے کیا ہی اچھا ہو کہ بچھو‘ ڈھونڈنے اور پکڑنے کے لئے تربیتی ادارے قائم کر دئیے جائیں اور اس کے لئے تو باقاعدہ کوئی وزارت بھی قائم کی جا سکتی ہے ہمارے ایک نہایت متحرک وزیر جواب سابقہ ہو گئے۔ انہیں اس وزارت میں کھپایا جا سکتا ہے۔ اب تو ان کے لئے باقاعدہ اشتہاری مہم بھی شروع ہو چکی ہے۔ بچھوﺅں کی وزارت کے لئے ایسا ہی تگڑا وزیر ہونا چاہئے۔ یوں بھی میاں شہبازشریف کی ناک کا بال وزیر آخر کتنی دیر ٬٬بے عہدہ،، رہ سکتا ہے۔ تنقید کا کیا ہے؟ وہ تو ہوتی رہتی ہے پہلے بھی ان پر ٬٬بچھودوست،، ہونے کا الزام ہے۔ ان کے مخالف انہیں سانپ اور کرلوں کا دوست سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا ہے اور ہر قسم کے حشرات الارض سے محفوظ رہے ہیں۔ انشاءاللہ وہ آئندہ بھی کامیاب رہیں گے۔ اگر فروغ حشرات الارض قسم کی وزارت قائم ہوگئی تو اس سے وطن عزیز کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو ملک و خطرناک بچھوﺅں سے نجات پائے گا دوسرا انہیں فروخت کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے ایک زمانے میں اپنے شہریوں کو بھی تو ڈالروں کے عوض ہم امریکہ کے حوالے کرتے رہے ہیں‘ یہ تو پھر پہاڑی بچھو‘ میں سیانے کہتے ہیں ٬٬موذی کو نماز چھوڑ کر مارنا چاہئے۔،، اب موذی بچھوﺅں کو مارنے کی بجائے پکڑ کر غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کو فروخت کریں تاکہ گاہک اور خریدار دونوں فائدے میں رہیں۔ ان دنوں موسم بھی بچھوﺅں اور سانپوں کا ہے اوپر سے ٬٬مون سون،، کا آغاز بھی ہوا چاہتا ہے۔ بچھو سانپ کرلے بلوں سے باہر آتے ہوئے ہیں ہمارے حکیم‘ جوگی سیاسی اسی موسم میں انہیں پکڑتے ہیں اور پھر ان کا تیل نکال کر فروخت کرتے ہیں لگتا ہے سنیاسی بھی اب سانڈھے کا تیل خود نکالنے کی بجائے اسے لاکھوں میں فروخت کریں گے کہ اب ان کا سانڈھے کا تیل خریدنے والے کم ہو گئے ہیں کہ عوام کا اپنا تیل نکل رہا ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب نے لوگوں کو دن میں تارے دکھا دئیے ہیں اور عوام الناس سیاستدانوں اور حکمرانوں کو جھولیاں اٹھا کر ٬٬دعائیں،، دے رہے ہیں۔ ویسے تو سیاست میں بچھوﺅں سانپوں اور کرلوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک زمانے میں تو باقاعدہ ایک ٬٬سلیم کرلا،، نے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا اور راتوں رات مشہور ہوگیا تھا بالکل ٬٬گلو بٹ،، کی طرح۔ اگر وزارت قائم ہو گئی تو پھر اس کے لئے بچھوفورس بھی تیار کی جا سکتی ہے ویسے قومی سطح پر اگر ہم اپنی اپنی آستینوں کی جھاڑیں تو بہت سے سانپ بچھو اور کرلے باہر نکل سکتے ہیں۔ حکومت اپنی منجی کے نیچے ٬٬ڈانگ،، پھیرے تو کئی اداروں سے ملک حشرات الارض کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ جب تک اس ملک میں کرپٹ افراد کو سرعام پھانسی پر نہیں لٹکایا جائے گا۔ ہمارا نظام کسی طرح درست نہیںہو سکتا۔ ہمارے ہاں قانون کا خوف ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اور خوف کے بغیر حضرت انسان کبھی ٬٬بندہ،، نہیں بنتا۔ یہ فطری بات ہے۔ بلا تبصرہ نثار ناسک کا شعر آپ کی نذر
اس مہینے میں بھی مزدور کو اجرت نہ ملی
بھائی ہڑتال پہ ہے اور بہن کا روزہ