ہماری پہچان، رمضان ہے رمضان

ہمارے پڑوس کے ایک بازار میں پھلوں بھری ریہڑیوں کی بھرمار رہتی ہے جہاں یہ پھل عام طور پر اچھے اور سستے مل جاتے ہیں اور ہم اکثر آتے جاتے یہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق پھل خریدا کرتے ہیں۔ اب کے رمضان کے دوسرے روز یہاں پہنچے تو دیکھا ساری مارکیٹ کے تیور ہی بدلے ہوئے ہیں۔ تمام اجناس بالخصوص اشیائے خورد و نوش کے دام آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ تو سوچنے لگے --- ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو --- وجہ پوحھی تو جواب ملا ”رمضان ہے۔“ ایک ایک کر کے وہاں موجود تمام پھلوں کے نرخ دریافت کئے تو معلوم ہوا تمام پھلوں کی قیمتوں میں پچاس سے سو فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے بلکہ کہیں کہیں تو اس سے بھی زیادہ تھا۔ تو حیران و پریشان ہو کر پوچھا کہ یہ کیا انقلاب آ گیا ہے کہ یہ قوم جو پہلے ہی تاریخ کی بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے تو مزید اس پر یہ افتاد کیوں؟ تو جواب ملا ”یہ رمضان ہے۔“ کھجوریں، جو سندھ اور جنوبی پنجاب میں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں عام طور پر وہاں سوغات کے طور پر پڑوسیوں میں مفت تقسیم ہوتی ہیں اور کہیں بکتی بھی ہیں تو نہایت ارزاں نرخوں پر اور یہ وہاں کا ارزاں ترین پھل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمارے ہاں پہنچتی ہیں بالخصوص رمضان میں تو سونے کا بھاﺅ اختیار کر لیتی ہیں۔ اب کے اسے تین سو روپے فی کلو بکتے پایا اور کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ ۔ تو اس کی وجہ بھی یہی ٹھہری کہ ”یہ رمضان ہے۔“
ہمیں یہاں اگلے روز ٹی وی پر سُنے، ایک عالم دین کا کہا، برملا یاد آ رہا ہے، وہ کہہ رہے تھے، مغربی ممالک میں مسلمان نہیں ہیں لیکن وہاں اسلام موجود ہے جبکہ ہمارے ہاں مسلمان ہیں لیکن افسوس اسلام نہیں ہے۔ بے شک ہمارے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ یورپ میں تو یہاں تک بھی ہوتا ہے کہ جب کرسمس یا ان کا کوئی مذہبی تہوار آتا ہے، کاروباری لوگ، اپنی اشیاءکی قیمتیں اس قدر کم کر دیتے ہیں کہ آسانی سے یہ ہر خریدار کی رسائی میں آ سکیں، وہاں لوگ ایسے تہواروں کا مہینوں انتظار کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کا اُلٹ ہوتا ہے۔ جب بھی رمضان یا مذہبی تہوار آتے ہیں تاجر لوگ اشیائے ضرورت کے نرخ کئی گنا بڑھا دیتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے وہ اشیاءکی ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ کر سکیں۔ نرح بالا کن کہ ارزانی ہنوز اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں جب ملک امیر محمد خان آف کالا باغ گورنر مغربی پاکستان تھے تو صوبے بھر کی منڈیوں اور انکے تاجروں پر انکی گرفت اس قدر مضبوط و مربوط رہی کہ ان کے دورِ حکمرانی میں تمام اشیاءبالخصوص اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اعتدال رہا، یہاں تک کہ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران جبکہ اشیاءکی دستیابی مشکل ہو گئی ان کی قیمتیں پہلے سے بھی کم کر دی گئیں، تو یہ معجزہ بھی ملک امیر محمد خان کی انتظامی صلاحیتوں کا اعجاز تھا اور یہی وجہ بھی رہی کہ جب تک وہ مغربی پاکستان کے گورنر رہے ایوب خان کی حکومت قائم و دائم رہی۔ اور پھر جب وہ کچھ اختلافات کی بنا پر حکومت سے علیحدہ ہو گئے تو ایوب خان کی حکومت بھی ڈگمگانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے، تھوڑے ہی عرصہ میں زمیں بوس ہو کر رہ گئی تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی بنی کہ ملک صاحب کے رخصت ہونے کے بعد اشیاءکی قیمتوں میں وہ استحکام نہ رہا۔ چینی اور آٹے کے نرخوں میں معمولی اضافے پر عوام بلبلا اُٹھے تو حبیب جالب کو بھی یہی کہنا پڑا ....
بیس روپے من آٹا اس پر بھی سناٹا
تو یہی احتجاج ایوب خان جیسی مضبوط حکومت کو بھی لے ڈوبا اور اب جبکہ آٹا 20 روپے فی کلو بھی دستیاب نہیں۔ تو یہ کیسا سناٹا ہے کہ عوام بھی خاموش ہیں اور حکومت بھی دم بخود۔ تو ہمیں یہاں ڈر لگ رہا ہے۔ ”یہ خاموشی“ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت نہ ہو۔ کاش ہمارے حکمران اس تاریخ سے کچھ سبق سیکھ پائیں ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے میں بخل نہیں کرتی۔

ای پیپر دی نیشن