شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اسکے نتیجے میں وہاں سے بے گھر ہونیوالے لاکھوں افراد کسمپرسی کی حالت میں صوبہ خیبر پی کے کے شہر بنوں میں زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بنوں کے سکولوں، فیکٹریوں کے گوداموں اور جانوروں کے باڑوں میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ اُنکی حالت زار 2009 میں مالاکنڈ آپریشن کے دوران مردان اور دوسرے شہروں میں آنیوالے مہاجرین سے کسی طرح مختلف نہیں ہے۔ شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونیوالے افراد کیمطابق انہیں اُنکے علاقے میں فوجی کارروائی کیمطابق قطعی کوئی پیشگی اطلاع فراہم نہیں کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت آخر کہاں ہے؟ شمالی وزیرستان میں کارروائی اچانک عمل میں نہیں آئی تھی اور 2009ءمیں مالاکنڈ آپریشن کے تجربے کی روشنی میں ضروری انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟ مردان اور دوسرے شہروں کے لوگوں نے بے گھر ہونیوالے افراد کی بہت مدد کی مگراُنکے وسائل محددو تھے اس لئے وہ تمام افراد کی میزبانی کے فرائض انجام نہ دے سکے۔ جہاں تک حکومت کی طرف سے مہیا کئے گئے کیمپوں کا تعلق ہے تو اُس میں رہائش کی سہولیات مہاجرین کی طرز زندگی سے متصادم ہیں، وہاں پر لوگوں کو PRIVACY نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2009ءمیں مالاکنڈ آپریشن کے دوران IDPs (ےعنی اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد) کو ”وطن کارڈ“ کے ذریعے نقد امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا مگر یہ کارڈ صرف چند افراد کو ملے اور بعد میں یہ سکیم خود بخود ختم ہو گئی اس مرتبہ نقد امداد کیلئے موبائل فون کی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے لیکن وقت ہی بتائے گا یہ کامیاب ہوئی یا نہیں۔ حکومت کی طرف سے IDPs کی نگہداشت کے حوالے سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ امداد فراہم کرنیوالے مختلف اداروں مثلاً وفاقی حکومت، خیبر پی کے صوبائی حکومت اور فاٹا کے درمیان Co-ordination یعنی رابطے کا مکمل فقدان ہے اور کوئی بھی ادارہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔جہاں تک پی ٹی آئی جس کی خیبر پی کے میں حکومت قائم ہے IDPs کے سلسلے میں مکمل طور پر لاتعلق نظر آئی ہے۔ عمران خان کے بہاولپور کے جلسے پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس اجتماع پر 4 سے 5 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اس خطیر رقم سے تقریباً 60 سے 70 ہزار افراد کو ایک ماہ تک خوراک اور دوسری ضرورت کی اشیاءمہیا کی جا سکتی تھیں۔ حکومت کی طرف سے امدادی کاموں میں تاخیر اور نااہلی کی وجہ سے پیدا شدہ خلا کو دوسری مذہبی تنظیمیں پُر کر رہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تما م سیاسی جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کو خیر باد کہہ کر IDP کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے میدان میں آئیں اور مل کر ان بے گھر اور بے آسرا لوگوں کی مدد کریں۔ نیز ہمارے سیاستدان IDP کے حوالے سے اپنی سیاست نہ چمکائیں ‘حکومت اپنی ترجیحات کا اس کا ازسرنو جائزہ لے کر IDPs کو پیش آنے والی مشکلات کو جنگی بنیادوں پر حل کرے۔
”شمالی وزیرستان کے متاثرین کی مشکلات“
Jul 13, 2014