ریاست جموں و کشمیر کے دونوں طرف پاکستان اور بیرون ممالک کشمیری 13جولائی کو یوم شہدائے کشمیر پورے جوش و جذبہ سے مناتے ہیں ریاست کی صدیوں سالہ تاریخ میں اس دن کو تحریک آزادی کا سنگ میل بھی کہا جاتا ہے 13جولائی 1931ء کو سرینگر سنٹرل جیل کے سامنے ہزاروں کشمیری مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ عبدالقدیر کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کی جیل کے اندر ہونے والی سماعت کو دیکھنا چاہتے ہیں ڈوگرہ حکومت نے کشمیریوں کے پر زور مطالبہ پر گولی چلا دی جس سے 22مسلمان شہید ہو گئے ریاست کی صدیوں پرانی تاریخ میں یہ پہلا سیاسی سانحہ تھا جس سے ایک پر جوش سیاسی تحریک کو جنم دیا عبدالقدیر یو پی کا رہنے والا پر جوش نوجوان تھا کشمیری اسے نہیں جانتے تھے وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا تھا ریاست کی 80فیصد آبادی مسلمانوں میں ڈوگرہ شخصی نظام کے خلاف سینوں میں جذباب ابل رہے تھے لیکن تحریر و تقریر پر پابندی تھی 22مسلمانوں کی اس شہادت نے گھٹن کے پردے چاک کر دیئے ریاست کے ڈوگرہ مہاراجہ نے اپنی کابینہ میں حیدر آباد دکن کے نواب بہادر جنگ کو اپنا وزیر مقرر کر رکھا تھا نواب بہادر جنگ نے مسلمانوں کے بھڑکتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ڈوگرہ مہاراجہ سے مسلمانوں کے ایک وفد کی ملاقات کا انتظام کیا تھا اس وفد کے صوبہ جموں کے ارکان سرینگر پہنچ چکے تھے صوبہ کشمیر کے ارکان کے انتخابات کے لئے 26جون 1930کو سرینگر مسجد شاہ ہمدان میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوا تھا ریاست کشمیر کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی اجتماع تھا جس میں 50ہزار کشمیریوں نے شرکت کی تھی اس اجتماع میں کشمیر کے ارکان وفد کا انتخاب ہوا تھا عبدالقدیر اچانک سٹیج پر آیا اور مہاراجہ کے خلاف باغبانہ تقریر کر ڈالی عبدالقدیرکو بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 13جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے اندر اس کے مقدمہ کی سماعت تھی یہاں پر 22مسلمانوں کی شہادت نے کشمیر میں بلکہ پنجاب بھر میں ایک کہرام پیدا کر دیا تھا ان شہیدوں میں سے ایک نے آخری سانس لیتے کشمیری نے شیخ عبداللہ سے کپکپاتے ہونٹوں سے کہا تھا شیخ صاحب ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اب آپ اپنا فرض ادا کریں ہائے افسوس! شیخ عبداللہ نے قیام پاکستان کے معجزاتی اور تاریخ ساز واقعہ کی روح سے غداری کی اور ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کی فوج کشی کو اپنا سیاسی کندھا دیا اس فوج کشی میں ڈھائی لاکھ کشمیری شہید ہو گئے بھارت کے ساتھ تین جنگیں ہوئی ہیں لیکن ریاست کے ایک کروڑ بیس لاکھ کشمیری اپنی جنت نظیر خطہ شاداب وادیوں اور فرحت انگیز بہاروں کے ساتھ ابھی تک بھارت کی فوج کے سایہ میں کراہ رہے ہیں13جولائی 1931کے کربناک سانحہ کے ساتھ ہی چھ نوجوان کشمیری رہنما مہاراجہ کی حکومت نے گرفتار کر لئے تھے ان میں علی گڑھ یونیورسٹی کے پہلے کشمیری ایم ایس سی شیخ عبداللہ اور پنجاب لاء کالج کے نوجوان لاء گریجویٹ چوہدری غلام عباس نمایاں تھے 13جولائی کے سانحہ اور نوجوان لیڈروں کی گرفتاری یا اپنا گریبان چاک یاد دامن یزداں چاک مہم کی تحریک کو جنم دیا جو سیاسی جدو جہد قربانیوں کشت خون، مہاراجہ کی فوج کشی کے کالے سایوں سے گزر کر آج حق خودارادیت کی تسلیم شدہ قرار دادوں کو عملی صورت دلانے کے لئے اقوام متحدہ کے ایوانوں اور عالمی قوتوں کی سفارتی فریب کاریوں میںالجھی ہوئی ہے۔