مفتاح الدین اکمل اللہ انیسویں صدی میں ایک عظیم مبلغ، استاد ، فلسفی اور شاعر گزرے ہیں، مفتاح اکمل نے وسطی ایشیا بالخصوص تاتارستان اور روس کی سب سے بڑی اور مسلم اکثریت والی نیم خود مختار ریاست (جمہوریہ) باشکورتوستان (باشکیریا) پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مفتاح اکمل نے اپنی طنزیہ شاعری میں سب سے پہلے قبائلی سرداری نظام ، مذہبی جنونیت اور نظریاتی تنگ نظری کو مسترد کرتے ہوئے روشن خیال معاشرے کی تشکیل پر زور دیا۔ انیسویں صدی میں جب کسی کو روسی ژار کے خلاف سوچنے کی جرات نہ ہوتی تھی، تب مفتاح اکمل نے اپنی شاعری اور سوچ سے تراشا پہلا نظریاتی پتھر پھینک کر ژار کے خوف سے جمود کے شکار معاشرے میں زبردست ارتعاش پیدا کردیا۔ اپنی (باشکیری) قوم کے نام لکھی گئی مشہور نظم ’’ نصیحت‘‘ میں مفتاح اکمل نے دنیا میں ترقی کیلئے روایات ، رواجات اور رسومات کے اندھیروں سے بالا تر ہوکر روشنی (یعنی علم اور فلاح)کی جانب سفر کا مشور ہ دیا ہے۔ مفتاح اکمل کے نزدیک انسانیت سب سے مقدم قرار پاتی ہے، اگر کوئی شخص بہتر انسان نہیں تو وہ بہتر مذہبی رہنما ہوسکتا ہے اور نہ ہی بہتر حکمران بن سکتا ہے۔ اِس شاعر کے ساتھ پونے دو سو سال تک بہت زیادتی کی گئی اورخطے میں جنم لینے والی مختلف سیاسی تحریکوں کی وجہ سے اُسے وہ مقام نہ دیا گیا، جس کا مفتاح اکمل حق دار تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ژار شاہی اور بیسویں صدی کے اختتام پر سوویت یونین کے پاش پاش ہونے پر ایک سو اسی سال بعد نوے کی دہائی میں مفتاح الدین اکمل اللہ کو قومی ہیرو اور قومی شاعر قرار دیدیا گیا۔ دریائے وولگا اور کوہ اورال کے درمیان واقع بشکوروتوستان کے جنت نظیر دارالحکومت اوفا شہر کے وسط میں 2008ء میں مفتاح اکمل کی یادگار اور مجسمہ بنایا گیا، جہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور اِس عظیم انسان دوست شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اسی بشکوروتوستان کے دارالحکومت اوفا میں گزشتہ ہفتے پہلے ’’بریکس‘‘ ممالک اور پھر شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس ہوا۔ ان اجلاسوں کے دوران شریک ممالک کے معاملات اور مسائل تو زیر غور آئے ہی لیکن پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کی ملاقات اِن اجلاسوں کا اصل حاصل تھی کیونکہ اوفا اجلاس سے صرف دو ہفتے پہلے تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں تھا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مزا چکھانے کی کھلی دھمکیاں دی جارہی تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب اوفا میں ملاقات کیلئے وزیراعظم نواز شریف کو بھارتی ہم منصب کا فون آیا تو اُس کے فوراً بعد پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے اسلام آباد فون گھمایا اور پھر چین اور روس کی جانب سے بھی اشارہ ابرو کے ذریعے ’’ہاں‘‘ کرنے کا پیغام ملا تو پاکستان کیلئے انکار کی کوئی صورت نہ تھی، کیونکہ امریکہ، چین اور روس تینوں ممالک اُس صورتحال سے نکلنا چاہتے تھے، جس میں جنوبی ایشیا پر ایک مرتبہ پھر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے، لیکن جہاں تک اس سوچ کا تعلق ہے کہ اِ س ملاقات سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں تو ایسا سوچناہی بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ حرف ناز کے گزشتہ کالم میں اِس کالم نگار نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ملاقات ’’مودی کی سیلفی لینے کی خواہش‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، حالانکہ اگر مسٹر مودی واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اُس کیلئے محض سیلفی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، لیکن اِس ’’ بہت کچھ‘‘ کیلئے تو بصیرت چاہیے، جس میں شاید مسٹر مودی ابھی ’’خودکفیل‘‘ نہیں ہوسکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہیں، کسی ایک گانٹھ کو کھولنے کی کوشش کریں تو اس عمل کے دوران بیسیوں اور گانٹھیں بندھ جاتی ہیں، کسی ایک گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی جائے تو درجنوں دوسرے الجھاؤ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں سینکڑوں نئے مسائل سر اٹھالیتے ہیں، ایک سوال کا جواب ابھی مل نہیں پاتا کہ کئی اور سوالات بھی جنم لینے لگتے ہیں اور ایک پریشانی ابھی ختم نہیں ہوپاتی کہ کسی واقعے کے بعد ایک نیا درد سر شروع ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پاکستان حیدر آباد اور جوناگڑھ کی بات کرے تو انڈیا کشمیر میں ایل او سی کے پار دراندازیوں کا شور مچانا شروع کردیتا ہے، پاکستان کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی داستانیں سنائے تو بھارت خالصتان کا رونا رونا شروع کردیتا ہے، پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس کی بات کرے تو بھارت کو کارگل کے زخم یاد آنے لگتے ہیں، پاکستان بھارت کے سامنے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور کراچی کے شورش پسندوں کو فنڈنگ کے ثبوت فراہم کرے تو ہندوستان ممبئی حملوں کے مزید ’’ڈوزیئرز‘‘ بھجوانے کی باتیں شروع کردیتا ہے اور اگر پاکستان سیاچن اور سرکریک پر بات کرنا چاہتا ہے تو بھارت کو گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دینے پر تکلیف ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یوں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات شیطانی چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور بسیار کوشش کے بعد بھی اس شیطانی چکر سے باہرنکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل پاتا۔ مہینوں کی تلخی اور کشیدگی کے بعد پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان ملاقات تو ہوگئی لیکن اِس ملاقات کے حوالے سے اگر بات محض اخلاقی برتری کی ہے تو یقینا وزیراعظم نواز شریف کو اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی پر اخلاقی برتری حاصل رہی۔ نواز شریف نے ناصرف یہ دعوت قبول کرلی بلکہ ملاقات میں نریندر مودی کے علاوہ آگے بڑھ کربھارتی وفد کے تمام ارکان سے بھی فردا فردا ملاقات کی۔اس کے برعکس ملاقات میں نریندر مودی سفارتی اور اخلاقی آداب سے مکمل بے بہرہ اور اقتدار کے خمار میں نظر آئے۔ یہ ملاقات چونکہ وزیراعظم مودی کی خواہش پر ہورہی تھی اس لیے وہ میزبان تھے اور نواز شریف مہمان تھے، لیکن میزبانی کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نریندر مودی نے اپنے مہمان کا چند قدم آگے بڑھ کر بھی استقبال کرنا گوارا نہ کیا۔اب جو آدمی آداب میزبانی سے آشنا نہ ہو اُس سے بھلا یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حکمرانی کی نزاکتوں اور سفارتی پہلوئوں کی باریکیوں سے آگاہ ہوگا۔قارئین کرام!! اوفا سمٹ کی کوریج کیلئے جانے والا بھارتی ہفتہ روزہ میگزین ’’دا ویک‘‘ کا نمائندہ بھانو پرکاش چندرااوفا میں مفتاح الدین اکمل اللہ کے قصبہ میں پہنچا تو اُسے میوزیم میں اُس حصے میں بھی جانے کا موقع ملاجو مفتاح اکمل کی شاعری کیلئے وقف ہے۔ میوزیم میں ایک پورٹریٹ پر مفتاح اکمل کی ہندوستان کے بارے میں لکھی نظم کا آخری مصرح پڑھ کر پرکاش حیران رہ گیا’’ہندوستان ایک عجوبہ ہے ، لیکن یہ عجوبہ کسی صاحب ِخرد کو اُسی وقت نظر آئے گا جب وہ میری نظر سے ہندوستان کو دیکھے گا ‘‘۔ اِسی خیال کو علامہ اقبال نے اپنے مصرح ’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ میں باندھا تھا۔ کاش نریندر مودی کے پاس ہندوستان کو مفتاح الدین کی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ہوتی! لیکن ’’بکھرے بیروں‘‘ کا بگڑا تو اب بھی کچھ نہیں۔ نریندر مودی اگر آمرانہ روش، مذہبی جنونیت، روایتی تنگ نظری اور علاقے میں چودھراہٹ قائم کرنے کی خواہش ترک کردیں ، اگر مسٹر مودی اکھنڈ بھارت کے عزائم سے دست کش ہوجائیں اور خطے میں بسنے والے دو ارب سے زائد انسانوں کا حق زندگی بھی تسلیم کرلیں تواکیلا ہندوستان ہی کیا،آج پورا جنوبی ایشیا عجوبہ بن سکتا ہے!