اسلا م کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوںکے ایمان افروز واقعات اور معرکوں سے بھری پڑی ہے۔مسلمانوں نے ہر دور میں اسلام کے تحفظ کیلئے جانیں قربان کیں اور معرکہ ہائے عدیم المثال برپا کئے ہیں۔ان میں سے ہر معرکہ ایمان افرو زاور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن سرزمین کشمیر پر کشمیری مسلمانو ںنے اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے ایک ایسا معرکہ برپا کیا جو جرات و بہادری اور جانثاری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔یہ آج سے 84سال پہلے کی بات ہے تب سرزمین جموں کشمیر پر ڈوگر ہ حکمران قابض تھے۔ قابض و غاصب حکمرانوںکی اپنی رعایا سے نفرت عام فہم بات ہے لیکن جو نفرت ڈوگرہ )حکمرانوں کو کشمیری مسلمانوں سے تھی اس کی مثال تاریخ میںشاذ ہی ملے گی۔ وجہ یہ تھی کہ ڈوگرے مذہباً ہند و تھے اور حد درجہ نسلی و مذہبی تعصب کا شکار بھی تھے۔انہوں نے جہاں معاشی اعتبار سے مسلمانوںکو پسماندہ رکھا وہاںمسلمانوں کا رشتہ اسلام سے بھی توڑنے کی بھر پور کوششیں کیں۔اس ضمن میںسب سے بھیا نک کردار ڈوگرہ راج کے بانی گلاب سنگھ کا ہے ۔گلاب سنگھ نے 1806 ء میں اپنی عملی زندگی کا آغاز بھمبر کے مسلمان راجہ سلطان خان کے ہاں 2روپے ماہوارپر کیا۔ راجہ سلطان نے گلاب سنگھ کو اعزاز واکرام سے نوازا مگرجب 16مارچ 1846 ء کو گلاب سنگھ انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے ریاست جموں کشمیر کے سیاہ وسفید کامالک بنا تو یہ مسلمانوں کیلئے نہایت ہی ظالم اور سفاک شخص ثابت ہوا ۔ اس نے سب سے پہلے اپنے محسن راجہ سلطان خان کو دھوکے سے جموں بلا کر شہید کروایا دیا۔ زندہ مسلمانوں کی کھا ل اتارنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کھا ل اتارنے کا عمل سر کی بجائے پائوں سے شروع کیا جاتااور مہاراجہ اپنے کم سن ولی عہد رنبیر سنگھ کے ساتھ اس وحشیانہ عمل کا خود مشاہدہ کرتا ۔انسانی جانوں کی بے وقعتی کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ دورمیں مسلمانوں پر بے انتہا معاشی پابندیاں و سختیاں بھی تھیں۔ندی نالوں میں بہنے والے قدرتی پانی کے علاوہ ،ہوا۔ سمیت ہر چیزپر ٹیکس تھا۔اگر کوئی مسلمان گھرمیں تازہ ہواکیلئے کھڑکی رکھناچاہتا تواس پر ٹیکس ،گھرمیں ایک سے زائد چولہا بنانے پرٹیکس، حد یہ ہے کہ مسلمان بچوں کے ختنہ کروانے پر بھی ٹیکس تھا۔ معاشی پابندیوں کے علاوہ مذہبی پابندیاں بھی تھیں۔ کہیں اذان پر پابندی تو کہیں مساجد پر تالہ بندی تھی۔ معاشی پابندیاں تو کسی حد تک قابل برداشت ہو سکتی تھیں لیکن جب مذہبی پابندیاں حد سے بڑھنے لگیں تو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا چلا گیا۔
29اپریل1931 ء کو مسلمان نماز عید کیلئے میونسپل کمیٹی باغ جموں میں جمع تھے۔ مفتی محمد اسحاق حضرت موسٰی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ دفعتا ًموقع پر موجود ڈوگرہ آئی جی رام چند کے حکم پر ایک پولیس انسپکٹر کھیم چند عید گاہ میں داخل ہوا اور نہایت ہی درشت لہجے میں مفتی محمد اسحق کو مخاطب کر کے کہنے لگا ’’ آپ جرم بغاوت اور قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں لہذا خطبہ بند کیجیے۔‘‘ آئی جی کا خیال تھا کہ امام صاحب فرعون کی آڑ میں مہاراجہ ہری سنگھ کو آڑے ہا تھو ں لے رہے ہیں۔بات یہ ہے کہ جب بھی عصائے حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر ہو تو وقت کا ہرفرعون اپنی ذات اور اقتدار کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔بہر کیف خطبہ عید کی بندش معمولی واقعہ نہ تھا کہ جسے نظرانداز کردیا جاتا۔ جموں شہر۔۔۔ ڈوگر ہ حکمرانوں کا پایہ تخت اور سیاسی ومذہبی طاقت کا مرکز تھا۔۔۔اس کے باوجود جموں کے مسلمان چوہدری غلام عباس کی قیادت میں خطبہ عید بند ش کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے یہاں تک کہ احتجاج کی لہریں پوری ریاست میں پھیل گئیں ۔دوسرا واقعہ 4جون 1931 ء کواس وقت پیش آیا جب جموں پولیس لائینز میں ایک ہندو کانسٹیبل لبھو رام نے قرآن مجید کی توہین کی۔ توہینِ قرآن کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یکے بعد دیگرے رونماہونے والے ان دو واقعات نے احتجاج کوشعلہ جوالہ بنا دیا ،مسلمانوں کی روحو ں کو تڑپا ،دلوں کو گرما ،ان کی غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔اس دوران ایک اور واقعہ پیش آیاجو جموں کشمیر میں دو قومی نظریہ کی صداقت وطاقت کی بنیاد اور اہل کشمیر کی منزل کے تعین کا سبب بنا ۔ ہوا یہ کہ خطبہ عید کی بندش اور اور توہین قرآن جیسے سنگین واقعات پرڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں کی تسلی وتشفی کرنے کی بجائے الٹا جارحانہ اور توہین آمیزرویہ اختیار کیا جس سے مسلمانوں کا مزید مضطرب ومشتعل ہونافطری امر تھا چنانچہ اس سلسلے میں 25جون1931 ء کوسری نگر میں بعداز نماز جمعہ ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں تقریباً 50،60 ہزار مسلمان جمع تھے۔میر واعظ مولانا محمد یوسف اورشیخ عبداللہ تقریر کر چکے تھے کہ ان کے بعد ایک اجنبی نوجوان نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تقریر شروع کی ۔ اس کی گرجدار آواز نے جلد ہی مجمع کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس نے اسلام کی روشنی میںبتایا کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مسلمانوں کیلئے کیا حکم ہے۔۔۔ اجنبی نوجوان کا کہنا تھا ’’ مسلمانو۔۔۔!یاد رکھو یاداشتوںاور قرارداوں سے ظلم کے بادل نہیں چھٹتے۔ ظلم کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔‘‘ ۔ ایک ر و ایت کیمطابق اس نوجوان کا تعلق صوبہ خیبر کے پی ( پاکستان ) سے تھا اس کا نام عبدالقدیر خان اور وہ ایک سیاح کے ساتھ بطور گائیڈ ریاست میں آیا ہوا تھا۔ حکومتی اہلکاروں نے عبدالقدیر کو فورا ہی حراست میں لے کر اور بغاوت کا مقدمہ درج کر کے پابند سلاسل کردیا۔ یہ 13جولائی کا ۔۔۔ دن تھا لوگ اپنے دینی بھائی عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت کیلئے جیل کے سامنے پر امن طریقے سے جمع تھے کہ اتنے میں نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ایک نوجوان اذان کہنے کے لئے دیوار پر چڑھا ابھی اس نے۔۔۔ اللہ اکبر۔۔ ۔ کہا ہی تھا کہ ایک فوجی جوان نے تاک کر موذن کا نشانہ باندھا اور کئی گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں۔وہ نوجوان موقعہ پرہی شہید ہو گیا۔ چنانچہ جب ایک نوجوان شہید ہوا تو جذبہ ایمانی سے سرشار دوسرا نوجوان آگے بڑھا،دیوار پہ چڑھااور اذان اس جگہ سے کہنا شروع کی جہاں پہلے نوجوان نے چھوڑی تھی۔اس نے ابھی اذان کا ایک جملہ بھی مکمل نہ کیا تھا کہ اسے بھی ڈوگرا فوجیوں نے خون میں نہلا دیا ۔پھر تو ایک کے بعددوسرامسلمان آگے بڑھتا رہا،اذان کا اگلا کلمہ دھراتا رہااور سینے پر گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کرتا رہا۔ آج اس واقعہ کو 84 سال ہوچلے ہیںمورخین آج بھی ڈ وگر ہ فوج کے اس وحشیانہ ظلم کے بارے میں لکھ رہے اور۔۔۔ اس کی مختلف توجیحات کر رہے ہیںکہ محض اذان کی خاطر اتنا ظلم کیوں کیا گیا۔۔۔؟اصل اورسچی بات یہ ہے کہ اذان۔۔۔۔ محض چند کلمات ہی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کے نظام ، حاکمیت ،کبریائی وبڑائی کا اظہار واقرار اور نظامِ کفر کا انکارہے۔یہ اسلام وکفر اور توحید و شرک کی کشمکش ،چراغ مصطفوی وشرارِ بوللہبی کی جنگ ہے جو ازل سے ابد تک جاری ہے۔ اسی راہ میں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو بھی ۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔ کی موجودگی میںاپنے نظام ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آرہے تھے۔یہی حال ڈوگرہ حکمرانوں کا تھا۔سو انہوں نے بھی پوری قوت اور طاقت سے ۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔ کی صدا کوکچل دینا چاہا۔۔۔لیکن یہ تو اللہ کا نور ہے جسے پھونکوں سے بجھانا ممکن نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کی برکت سے ہی اہل کشمیر کو ظالم ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات ملی، ریاست جموں کشمیر کا 84471مربع میل خطہ آزاد ہوا اہل کشمیر نے اپنامستقبل پاکستان سے وابستہ کیا۔۔۔اور اب مقبوضہ جموں کشمیر بھی اسی کلمہ طیبہ کی برکت سے آزاد ہو گا ۔اسی کلمہ نے ایک اجنبی نوجوان عبدالقدیر کو اپنے مظلوم مسلمان بھایئوں کی مدد پر آمادہ کیا تھا اور ہم بھی ان شاء اللہ اس کلمے کو گواہ بنا کر اپنے بھائیوں کی مدد جاری رکھنے کاعہد کرتے ہیں۔ 13جولا ئی کے دن اہل کشمیر کا اپنے سینوں پر گولیاں کھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم بزدل نہیں بلکہ،جر ی وبہادر ، شجاع ودلیراور اسلام کی والہ وشیدا ہے ۔13جولائی کے دن میں یہ پیغام بھی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی اساس اور بنیاد۔۔۔اسلام ہے۔یہ تحریک۔۔۔ا سلام کی بنیاد پر شروع ہوئی، سری نگر کی جامع مسجد میں پلی بڑھی اور قرآن کے سایہ میں جوان ہوئی۔ آج بھی کشمیری قوم کا پسندیدہ و مقبول نعرہ ’’آزادی کے تین نشان اللہ محمد اور قرآن‘‘ ہے۔گویا اہل کشمیر اپنا مقدر اسلام سے وابستہ کرچکے ہیں۔ جو اقوام اورافراد اپنا تعلق اللہ سے جوڑ لیں۔۔۔ تو فرشتے ان کی مدد کے لئے آسمانوں سے اترتے اورفتح و کامیابی کی بشارت صرف انہی کیلئے ہے۔