’’دل سکندر کمبدے ویکھے…‘‘

خاکسار کو پچپن میں نارنگ منڈی کے ایک نواحی گائوں کی ایک نہایت سادہ مسجد میں کبھی نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوا کرتا تھا۔ یہ مسجد ایک چھوٹے ہال، برآمدے اور صرف دائیں بائیں چھوٹی دیواروں کے درمیان صحن پر مشتمل تھی۔ دیواروں پر کھڑے ہوکر بغیر لائوڈاسپیکر کانوں میں انگلیاں دبائے مئوذن اذان دیا کرتا تھا۔ مسجد کا کوئی بیرونی دروازہ نہیں تھااور مسجد میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ میٹھے پانی کی ایک ’’کھوئی‘‘ یعنی چھوٹا کنواں تھا۔ یہاں سے نمازی مضبوط رسی سے بندھے ’’بوکے‘‘ یا ربڑ کے چھوٹے تھیلے کے ذریعے پُلی گھماتے پانی نکالتے اور ملحقہ ٹونٹیوں میں ڈال کر وضو کرتے۔ مسجد کے بزرگ نمازی بتلاتے کہ انھیں محسوس ہوتا کہ کبھی کبھی عشاء اور خصوصا فجر کی نماز کے دوران کوئی اجنبی شخص اچانک جاری جماعت میں شامل ہوتا اور سلام پھیرتے ہی انسانی یا بلی کے روپ میں صحن کی طرف لپکتے غائب ہوجاتا۔ اولا نمازی ایک انجانے خوف میں مبتلا رہے لیکن بعد ازاں بزرگوں نے اخذ کیا کہ یہ ایک نیک مسلمان جن ہے جو نماز میں شامل ہوتا ہے اور اسکی شمولیت رمضان میں نمازِ تراویح کے دوران تلاوتِ قرآن پاک سننے کیلئے بڑھ جاتی ہے۔ یوں وہ جن جو انسان کیلئے خوف اور ہیبت کی علامت ہوتا ہے ماہِ رمضان میں کلامِ پاک کی وجہ سے اتنا نرم ہو جاتا ہے کہ نمازی اُسکی موجودگی سے خوف کی بجائے راحت اور فخر محسوس کرتے ہیں اور ایمان تازہ کرتے ہیں۔
یونہی قصور کے ایک ملحقہ قصبہ پھولنگر کی ایک مسجد میں کسی جن کے قرآنِ پاک حفظ کرنے کی داستان بھی زبانِ زدِ عام ہے جہاں اُسکی درخواست پر اس شرط پر اُسے قرآنِ پاک حفظ کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ اپنا اصل روپ کبھی آشکار نہیں کریگا۔ کئی اور علاقوں میں بھی جنات کے خفیہ انداز میں تلاوتِ قرآن پاک سننے کے قصے بیان کئے جاتے ہیں۔ سورۃ جن کے مطابق جنات کی ایک جماعت نبیـ اکرم ـؐ کے حضور پیش ہوئی قرآن سیکھا اور اپنی بستی میں واپس جاکر دیگر جنات کو سکھایا اور سب مسلمان ہوگئے- گوکہ ان سینہ بہ سینہ داستانوں کی حقیقت کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آتے ہیں۔ کبھی تو ایسے حقیقی اور سچے واقعات خلقِ خدا کیلئے حقیقتاً روحانیت کا سبب بنتے ہیں اور کبھی ایسے واقعات کو مذہب اور روحانیت کے نام پر ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر گڑھ لیا جاتا ہے۔
رمضان کے آغاز سے ہی کئی سخت دل افراد بھی سر پر سفید ٹوپی پہنے جھکی گردن، نظروں اور نرم لہجے کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ دیکھے جاتے ہیں اور انسانوں کی یہ حلیمی آخری عشرہ مبارک میں تواُس وقت نقطئہ کمال پر پہنچ جاتی ہے جب خصوصا طاق راتوں میں نمازِ تراویح کے دوران خوبصورت آواز اور لہجہ میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تلاوت ِ قرآن ہر سخت اور نرم دل انسان پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایسا ایک سماں سا پیدا ہو جاتاہے کہ لوگ نماز کے دوران سسکیاں اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتے ہیں اور آسمان کیساتھ دل کی ایک ایسی تار جڑ جاتی ہے جو شائد ہی کبھی سال بھر کی عمومی عبادت میں جُڑتی ہو۔ درحقیقت یہ معرفت اور پہچان کا ایک ایسا مقام ہوتا ہے جو کلام اللہ کی تلاوت کی بدولت ہاتھ لگتا ہے۔ خاکسار کو آج محسوس ہوتا ہے کہ قوالی اور معرفانہ کلام کی محفلوں کو محفلِ سماع کیوں کہتے تھے۔ اللہ اور نبی کے ذکر سے ایسا سماں پیدا ہو جاتا کہ اچھے بھلے سخت دل نرم ہوکر جھوم اٹھتے اور انکے دلوں کی تار آسمان کیساتھ ٹھک کرکے یوں جا جڑتی کہ شائد سالوں کی عبادت میں ایسے لمحات کے موتی اور جواہر ہاتھ نہ لگتے۔
آقا ئے نامدار محمدؐ نے اللہ سے دوسخت دل انسانوں یعنی ابو جہل اور حضرت عمرِ فاروق ؓ میں سے کسی ایک کو ان کا ساتھی بنائے جانے کی استدعا کی- عین اُس وقت جب عمرِ فاروق اپنی بہن اور بہنوئی کو اسلام قبول کرنے پر قتل کرنے کی نیت سے انکے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ دونوں تلاوتِ کلام پاک کر رہے ہیں کہ سخت دل پر کلامِ پاک نے ایسا اثر کیا کہ تلوار نیام میں ڈال لی اور مشرف بہ اسلام ہوکر نبی ـؐکے قافلے میں شامل ہوگئے اور دوسرے خلیفہ مقرر ہوئے۔
ہرگاہ یہ شرف ماہ رمضان کو ہی حاصل ہے کہ تلاوت ِ کلام پاک سے ٹیڑھے دلوں کو بھی نرم کرکے سیدھا کر دیتا ہے۔ مسیحت، بدھ مت اور دیگر مذاہب نے بھی روزے کی اہمیت کا اعتراف توکیا ہے تاہم وہاں یہ تصور ِانفرادی زیادہ ہے جبکہ اسلام نے اسے خوبصورت اجتماعیت کا درجہ دے کر امر کر دیا ہے جہاں اجتماعی طور پردلوں کی نرمی منتہائے نظر ہے۔ ماہ رمضان ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتا ہے کہ دل ِ انفرادی اور اجتماعی طور پر نرم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کا اثر کم از کم اگلے چند ماہ ضرور نظر آتا ہے جو دل ان دنوں بھی خالق اور مخلوق کی طرف نرم ہوئے بغیر رہ جاتے ہیں انکے دلوں پر مہریں ثبت کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کی بدولت کسی سخت ترین انسان، اوپر ذکر کئے گئے جنات اور بادشاہ یا سکندر کا دل بھی کانپنا شروع کر دیتا ہے حتی کہ وہ ناصرف خالق بلکہ اس کی مخلوق کی عبادت اور خدمت کیلئے تیار ہو جاتا ہے- اور اسی کامیابی پر عیدالفطر مناتا ہے۔ آپ سب کو ماہِ رمضان میں قرآن کی سماعت مبارک ہو اور آپ سب کو عیدالفطر کی شکل میں دل کی نرمی مبارک ہو۔ اپنے دِلوں کو اپنے آس پاس خلقِ خدا کیلئے ایسے ہی نرم کرلیں جیسے ماہِ رمضان میںکئی دیو ہیکل شخصیات، افسران، جج صاحبان اور سخت دِل سکندروں کے دِل ذکرِ قرآن کے اثر سے کانپتے اور خدا اور خلقِ خدا کیلئے نرم ہوتے دکھائی دیئے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...