ایدھی تجھے سلام

دکھی انسانیت کے عظیم خدمتگار معروف سماجی راہنماء عبد الستار ایدھی آج ہم میں نہیں مگر انسانیت کیلئے انکی لازوال خدمات کے پیش نظر انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔دعا ہے کہ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے اور انکے عظیم مشن کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ انکی خدمات کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں یاد رکھا جائیگا۔ انسانیت کیلئے انکی خدمات انمول ہیں جن کو پیسوں یا ایوارڈز سے ہرگز تولا نہیں جاسکتا تاہم ان خدمات کے اعتراف میں انہیں جن قومی ایوارڈز سے نوازا گیا ان میں سلور جوبلی شیلڈ منجانب کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ،سوشل ورکر آف سب کنٹینیٹ منجانب حکومت سندھ، نشان امتیاز ،سول ڈیکوریشن منجانب حکومت پاکستان،دکھی انسانیت کی خدمات کے اعتراف کا ایوارڈ منجانب وزارت صحت و سماجی بہبود حکومت پاکستان، پاکستان سول ایوارڈ منجانب پاکستان سوک سوسائٹی،شیلڈ آف آنر منجانب پاکستان آرمی،خدمت ایوارڈ منجانب پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز،ہیومن رائٹس ایوارڈ منجانب پاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی، اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری منجانب انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی قابل ذکر ہیں۔انہیں بے شمار بین الاقوامی ایوارڈز بھی دئیے گئے جن میں ریمون میگسیسے ایوارڈ فار پبلک سروس،لینن امن پرائز،پال حارث فیلو منجانب روٹری انٹرنیشنل فائونڈیشن ،امن پرائز منجانب سابق سوویت یونین،لارجسٹ وولنٹیری ایمبولینس سروس آف ورلڈ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ،ہمدان ایوارڈ فار وولنٹیئرز منجانب یو اے ای،انٹرنیشنل پرائز فار ہیومنٹی اینڈپیس منجانب اٹلی،امن و ہم آہنگی ایوارڈ دہلی، امن ایوارڈ ممبئی، امن ایوارڈ حیدرآباد دکن،وولف اینڈ بھوگیو پیس ایوارڈ اٹلی،گاندھی امن ایوارڈ،یونیسکو مدن جیت سنگھ امن ایوارڈ پیرس،امن ایوارڈ سیئول جنوبی کوریا،امن ایوارڈ لندن اہم ہیں۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر کون کون سے ایوارڈز اس معروف شخصیت کو مل چکے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو عبدالستار ایدھی کا نام اور کام نہ جانتے ہوں۔انہیں امن کا نوبیل انعام نہیں ملا اس سے انکی قدرومنزلت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔در اصل کچھ لوگ ایوارڈ ز اور انعام سے بالا تر ہوتے ہیں انہیں ایوارڈز کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایوارڈز کو انکی ضرورت ہوتی ہے۔کچھ لوگ نوبیل انعام کے باوجود عوام کے ہیرو نہیں بن سکتے مگر عبدالستار ایدھی جیسے لوگ جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں انہیں انسانیت کیلئے گراں قدر خدمات کی وجہ سے اپنا ہیرو ماننے میں لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ملین ڈالر سرمائے کی حامل آرگنائزیشن کا یہ سربراہ ڈسپنسری کے اوپر واقع دو کمرے کے معمولی فلیٹ میں زندگی گذار جاتا ہے۔ وہ دو سوٹ اپنے لئے کافی سمجھ کر انتہائی سادگی میں دکھی انسانوں کی خدمت میں مگن رہتے۔ایمبولینس خود ڈرائیو کرتے ،حتیٰ کہ ڈاکٹر کی ہدائت کے باوجود آرام کی بجائے ایدھی سنٹرز میں پہنچ کر سماجی کام میں مصروف رہتے۔سماجی خدمات میں وہ مذہب،ذات، رنگ و نسل ، سیاست اور وطن سے ہمیشہ بالا تر رہتے۔ وہ یہی کہتے کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ وہ جناح کیپ پہنتے اور جناحؒ کی طرح کام کام اور صرف کام کے فلسفے پر عمل کرتے۔ایدھی فائونڈیشن کیلئے کسی حکومت،مذہبی و سیاسی تنظیم سے ڈونیشن قبول کرنا ہمیشہ ممنوع رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فائونڈیشن نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی طرف سے ایک کروڑ روپے کی پیش کش انتہائی شائستگی سے ٹھکرا دی۔اس سے قبل حکومت جاپان نے ایک سو ٹیوٹا ایمبولنسز ڈونیٹ کرنے کی پیشکش کی جو فائونڈیشن نے قبول نہ کی۔انکا استدلال یہ تھا کہ ایسی تنظیمیں ڈونیشن کرنے کے بعد فائونڈیشن کے غیر جانبدارانہ کام میں مداخلت کا باعث بن سکتی ہیں جو انہیں کسی صورت منظور نہیںوہ صرف غیر جانبدار مخیرحضرات سے ڈونیشن قبول کرتے اپنے آخری ایام میں بھی انکی چند باتوں نے ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن پر انتہائی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ انہوں نے شدید علالت کے باوجود بیرون ملک رجوع کرنے کی بجائے پاکستان میں ہی علاج معالجہ کو ترجیح دیکر بہت بڑا پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ اگر دیکھاجائے تو کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس درجہ کی پاکستانیت کا ثبوت دینے کی جر أت رکھتے ہیں۔اگر سرکاری سہولت دستیاب ہو تو انکے معمول کے چیک اپ بھی آئے روز لندن امریکہ سے ہوتے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں سمجھی جاتی۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اپنے جنازہ کے جلوس کی خاطر شہر کی شاہراہوں کو عوام کیلئے بند کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ جس عوام کی خدمت کیلئے انہوں نے زندگی بھر جدوجہد کی انہیں اس روز بھی تکلیف نہ دی جائے۔ تیسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے تمام اعضاء عطیہ کر رکھے تھے یہ الگ بات ہے کہ انکی علالت کی وجہ سے صرف آنکھیں ہی عطیہ ہو سکیں۔ چوتھی اور آخری بات جس نے عوام کو بے حد متاثر کیا وہ انکے آخری الفاظ کچھ یوںتھے۔’’ میرے ملک کے غریبوں کا خیال رکھنا،، عوام کی طرف سے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ افواج پاکستان نے عوام کے اس عظیم خیر خواہ کو توپوں کی سلامی کیساتھ گارڈ آف آنر پیش کر کے عوام کے دل موہ لئے ہیں۔ حکومت نے تدفین سرکاری اعزاز کیساتھ کرنے اور ایک دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا جو یقینا قابل ستائش ہے مگر کافی نہیں حکومت کو اس حوالے سے بہت کچھ کرنا ہوگا ۔صرف دو جوڑے کپڑوں میں گذارہ کر تے تھے تو یہ ایک پیغام ہے کہ چیتھڑے پہننا منظور مگر کرپشن وارے میں نہیں۔ وہ ضعیف العمری میں بھی خود ایمبولینس ڈرائیو کر کے مظلوم کی امداد کیلئے پہنچ جاتے تھے تو یہ پیغام ملتا ہے کہ جب تک ظلم ہے آرام منظور نہیں۔اگر عوام کے یہ عظیم ہیرو بیرون ملک جانے کی بجائے اپنے ملک میں علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں تو اشرافیہ کا یوںسرکاری خرچے پر ملک سے باہر علاج کے بہانے دوڑتے پھرنا کیا ملکی نظام پر عدم اعتماد اور پاکستانیت کے منافی نہیں۔ اگر اس عظیم ہستی کی جانب سے اپنے جنازے کے جلوس کیلئے راستوں کی بندش اور پروٹوکول کا تکلف ممنوع کیا جاتا ہے تو کیا یہ پیغام نہیں ملتا کہ عوام کو بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے انکے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں کوئی پامال نہیں کر سکتا۔ اگر وہ جاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میرے ملک کے غریبوں کا خیال رکھنا تو کیایہ جملہ کسی لحاظ سے مبہم یا ناقابل فہم ہے؟

ای پیپر دی نیشن