4 جولائی کو میرے کالم کا عنوان تھا ”رمضان، دُعائیں اور بد دُعائیں“ جس کا ایک پیرا گراف تھا ”صدر ممنون حسین سمیت دوسرے سیاستدان اور عُلمائے کرام اِمسال رمضان شریف میں عُمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے (سرکاری خرچ پر) سعودی عرب تشریف لے گئے ہیں اُن کے لئے بھی کسی نہ کسی نے تو دُعا کی ہوگی؟“۔ میرا کالم پڑھ کر 4 جولائی کو ہی صدر محترم کے "Consultant" جناب فاروق عادل نے ”جوابِ آں غزل“ کے طور پر مجھے خط لِکھا جو مجھے 11 جولائی کو موصول ہُوا۔ فاروق عادل صاحب کے خط کا اختصار (لیکن اہم نکات) معزز قارئین و قاریات کی خدمت میں پیش ہیں۔
محترمی و مکرمی اثر چوہان صاحب! آپ کا تازہ کالم ”رمضان، دُعائیںاور بد دُعائیں“ پیشِ نظر ہے۔ آپ کی یہ اطلاع تو درست ہے کہ صدر مملکت 25 جون کو بہ غرض عُمرہ سعودی عرب تشریف لے گئے تھے لیکن اُسی روز الیکٹرانک میڈیا پر اور اگلے روز اخبارات میں یہ خبر آگئی تھی جِس میں کہا گیا تھا کہ ”صدر مملکت کا یہ دورہ خالصتاً ذاتی ہے اور وہ اور اُن کے خاندان کے تمام افراد کمرشل فلائیٹ پر اپنے ذاتی خرچ پر یہ سفر کر رہے ہیں۔ آپ ایک سینئر صحافی ہیں اور صدر صاحب کے حوالے سے آپ کی تحریروں سے مجھے لُطف اندوز ہونے کا موقع اکثر ملتا رہتا ہے لیکن میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب ممنون حسین نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے حج اور عُمرے کے جتنے بھی سفر کئے ہیں وہ سب ذاتی حیثیت میں کئے اور سرکاری خزانے سے اُن پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہُوا۔ والسلام، مُخلص فاروق عادل!“۔
محترم فاروق عادل صاحب! آپ کے خط کے ذریعے میں یہ جان کر بہت خوش اور حیران ہوا کہ سابق صدور، جنرل پرویز مشرف اور جنابِ آصف زرداری کے برعکس صدر ممنون حسین اور اُن کے خاندان کے سارے لوگ حج اور عمرے کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے ہیں اور ہاں! فاروق عادل صاحب! صدر صاحب کے حوالے سے میری تحریروں سے آپ کو لُطف اندروز ہونے کا موقع اِس لئے ملتا رہا ہے کہ آپ کا ادب و صحافت سے شغف رہا ہے۔ میں بھی جانتا ہوں کہ میری تحریروں میں کرختگی نہیں ، شگفتگی ہوتی ہے۔ 27 مارچ 2004ءکو صدر ممنون حسین افغانستان کے دورے پر تھے جب اُس وقت صدر افغانستان جناب حامد کرزئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدرِ پاکستان کو ”صدر سُخن وَر“ کا خطاب دِیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ”ہمارے صدرِ محترم نے افغان صدر کو اپنا اُردو/ فارسی کلام سنایا ہوگا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا کہ ”جس طرح جمہوریہ چین کے بانی ”قائدِ انقلاب“ اور چِین کی سُرخ فوج کے کمانڈر انچیف آنجہانی ماﺅزے تنگ چینی زبان کے عظیم شاعر بھی تھے اور اُنہوں نے اپنی انقلابی شاعری سے سرخ فوج کے افسروں اور جوانوں کو انقلاب کے جوش سے بھر دِیا تھا، اُسی طرح پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر، صدرِ سُخن وَر جناب ممنون حسین بھی اپنی شاعری سے دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے لئے علاّمہ اقبال کے تصور کے مطابق....
”جو قلب کو گرما دے جو رُوح کو تڑپا دے!“
کی صورت بن جائے گی لیکن ”صدرِ سُخن وَر“ تو آج تک اپنی شاعری کو اِس طرح چھپائے پھرتے ہیں جِس طرح روایتی مشرقی دوشیزائیں اپنی سہیلیوں سے اپنی محبت چھپاتی ہیں۔ صدر ممنون حسین 23 دسمبر 1940ءکو (منٹو پارک میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے 9 ماہ بعد) آگرہ میں پیدا ہُوئے۔ گویا انہیں تحریکِ پاکستان میں حِصّہ لینے کا موقع نہیں مِلا۔ صدارت کے منصب سنبھالنے کے ایک سال اور 8 ماہ بعد جناب ممنون حسین نے 20 مئی کو 2015ءکو ایوانِ صدر میں سابق صدرِ پاکستان چیئرمین ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ جناب محمد رفیق تارڑ سمیت قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کے کارکنوں اور ”مفسّر نظریہ¿ پاکستان“ ڈاکٹر مجید نظامی کے 43 ساتھیوں کو مدُعو کِیا تو مَیں نے 22 مئی 2015ءکے اپنے کالم میں خوشی کا اظہار کِیا کہ ”صدر سُخن وَر“ نے نظریہ¿ پاکستان کے اتالیق سے ”حقیقی نظریہ¿ پاکستان“ کا درس لینا شروع کردیا ہے۔
یہ اِس لئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ ن کے صدر، وزیراعظم نواز شریف خود قیام پاکستان کے بعد(25 دسمبر 1949ءکو) پیدا ہُوئے اور اُن کا تو قائداعظم کے خلاف کُفر کے فتویٰ دینے والے اور قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے کانگریسی مولویوں کی باقیات (خاص طور پر مولانا فضل اُلرحمن اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری) نے گھیراﺅ کر رکھا ہے۔ فاروق عادل صاحب! یہ دونوں مولانا صاحبان، دوسرے مسالک کے مولانا صاحبان اور مسلم لیگی اور غیر مسلم لیگی قائدین بھی سرکاری خزانے سے رقوم لے کر حج اور عُمرے کے لئے سعودی عرب کے سفر پر کیوں جاتے ہیں؟ اُس کی وضاحت کرنا آپ کا شعبہ نہیں ہے لیکن ایک ایسے آئینی صدر کی طرف سے جو خود اور اُن کے خاندان کے سارے لوگ اپنے خرچ پر حج اور عُمرے کے لئے سعودی عرب تشریف لے جاتے ہیں محض ریکارڈ کی درستی کے لئے وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ خزانہ کو ایسے خطوط کیوں نہیں لِکھ سکتے کہ ”حج اور عُمرے کے لئے اِس طرح کے دَورے سرا سر خیانت ہیں؟“
20 دسمبر 2015ءکو ”صدرِ سخن وَر“ مفسر نظریہ¿ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے ”ڈیرے“ (ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور) جِسے بجا طور پر ”نظریاتی“ G.H.Q کہا جاتا ہے، پر تشریف لے گئے جہاں جنابِ محمد رفیق تارڑ نے انہیں ایک "Shield" سے نوازا۔ مجھے بڑی خوشی ہُوئی کہ ”صدرِ سخن وَر“ نے قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے کارکنوں اور اُن کے وارثوں سے نظریاتی روابط قائم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اگرچہ میں اُس تقریب میں شرکت نہیں کر سکا۔ مَیں نے 22 دسمبر کو ”نوائے وقت“ میں اپنے کالم میں ”صدرِ سُخن وَر“ کو "Shield Marshal President" کا خطاب دِیا تھا۔ اِس سے قبل 20 فروری 2014ءکو ڈاکٹرمجید نظامی نے مجھے ”شاعرِ نظریہ¿ پاکستان“ کا خطاب دِیا تھا۔ اُس کے بعد میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ ”صدرِ سخن وَر“ سے کئی بار یہ درخواست کر چکا ہُوں کہ ”آپ بھی کبھی مصّور پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی شخصیت پر کوئی نظم لکھیں!“ لیکن شاید اُنہیں اپنی گُوں نا گُوں مصروفیات کی وجہ سے فرصت نہیں مِل سکی۔ فاروق عادل صاحب ! میرے وجدان کے مطابق علامہ اقبال نے اپنی درج ذیل نظم ”شاعر“ میں ”صدرِ سُخن وَر“ جناب ممنون حسین کو خطاب کِیا ہے۔ نظم کا مفہوم وہ خود اور محفلِ نظمِ حکومت سجانے والے دوسرے اکابرین خوب جانتے ہوں گے۔ نہیں جانتے تو علامہ اقبال کو کوئی فرق نہیں پڑے گا....
”قوم گویا جسم ہے ، افراد ہیں اعضائے قوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست وپائے قوم
محفلِ نظمِ حکومت، چہرہ¿ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دِیدہ¿ بینائے قوم
مُبتلائے درد کوئی عُضو ہو، روتی ہے آنکھ
کِس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ“