زاہد تنگ نظر نے مجھے کافرجانا

طالبان صرف جنرل راحیل شریف سے ڈرتے ہیں۔ یہ بات طالبان کی قید میں رہنے والے علی گیلانی نے اُن سے ایک ملاقات کے بعد کہی ہے۔ پاکستان میں طالبان جیسے حکمران اور سیاستدان بھی جنرل راحیل شریف سے ڈرتے ہیں۔ عام لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ عظیم ایدھی کے جنازے میں انہیں دیکھ کر لوگوں نے نعرے لگائے۔ کچھ لوگوں نے ان نعروں میں موجود حکومت کے خلاف کسی کیفیت کو اذیت کی طرح محسوس کیا۔ پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو نے جنرل راحیل شریف کو اپنی گفتگو میں سلام پیش کیا اور مشورہ بھی دیا کہ ’’پاکٹ یونین‘‘ سے بچیں۔ نجانے یہ کیا ہے۔ سیاسی پاکٹوں میں تو ڈالر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے پاس لوگوں کو مطمئن رکھنے اور دھوکے میں رکھنے کے لئے کوئی کمیٹی نہیں ہے، کوئی ادارہ نہیں ہے، کوئی پرویز رشید بھی نہیں ہے۔
آجکل وطن کے در و دیوار پر جنرل راحیل کے لئے بینرز لگے ہوئے ہیں۔ خدا کے لئے جانے کی باتیں نہ کرو۔ انہیں مارشل لاء کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مارشل لاء نہ ہو مگر کوئی لاء تو ہو۔ ملک میں نہ حکومت ہے نہ حکمت کا کوئی رنگ، نہ کوئی قانون ہے۔ ہر کوئی سب کچھ کررہا ہے جو اختیار رکھتا ہے اور جو کسی طرح کا اقتدار رکھتا ہے۔ اقتدار والوں کے رشتہ دار بھی ہیں، سمدھی ہے یا دُور پار کا بھانجہ ہونے کا فیصلہ کئے بیٹھا ہے۔ اس کے لئے فیصل آباد کا ہونا ہی کافی ہے۔
جنرل راحیل کو لوگ بلارہے ہیں۔ یہ بلاوے کیوں ہوتے ہیں، ایسی نوبت ہی کیوں آنے دی جاتی ہے۔ عظیم اور زندہ ترایدھی کہیں گیا ہے تو لوگ اس کا ذکر اس طرح کررہے ہیں جیسے کسی نیک دل غریب پرور، بے لوث حکمران کا کیا جانا ہے۔ بار بار حکمرانوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایدھی جیسے ہوجائیں۔ ایدھی بظاہر حکمران نہ تھا، کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے اس نے بہت کچھ کرلیا۔ کسی حکمران کے نصیب میں ایسی عزت، اتنی پذیرائی، پسندیدگی نہ آئی ہوگی۔
اس نے بیرون وطن علاج کرانے کی پیشکش کئی بار ٹھکرا دی۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن محبوب و محترم ایدھی صاحب کی تدفین کی جارہی تھی، اسی دن بیرون وطن سے اپنا علاج کرا کے نواز شریف واپس آئے۔ شکر ہے وہ صحت یاب ہوئے اور تازہ دم ہوئے۔ لوگوں کی خدمت کا پھر موقع تو انہیں ملا ہے۔ جو لوگ ایدھی کے جنازے میں تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، آنسوئوں جیسا سوز و گداز ان کی آنکھوں میں تھا اور وہ لوگ جو نواز شریف کے استقبال کے لئے گئے ہوئے تھے، ان کی آنکھوں میں بھی چمک تھی جسے بیان کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔
لوگ جب تنگ آمد ہوتے ہیں اور بجنگ آمد نہیں ہوسکتے تو وہ زیادہ تنگ ہوتے ہیں، بے زار ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی بے قرار بھی ہوتے ہیں۔ تو وہ صرف پاک فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ سیلاب ہو یا کوئی عذاب ہو، فوجی جوان ہی لوگوں کی خدمت کو آتے ہیں ان سے محبت بھی کرتے ہیں اور ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔
مگر ایک عجیب المیہ ہے کہ ہمارے پاس حکمران اور فوجی حکمران ایک جیسے تھے۔ لوگوں نے جس کو نجات دہندہ سمجھا۔ اس سے نجات پانے کے لئے وہ زیادہ بے قرار ہوگئے۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ایدھی صاحب کے لئے ہمارے برادر کالم نگار اور ڈپٹی ایڈیٹر نوائے وقت محمد سعید آسی کے کالم کا عنوان ہی کافی ہے ’’لاشیں گرانے والو باز آجائو، اب لاشیں اٹھانے والا نہیں رہا۔‘‘ آسی صاحب نے تنگ نظر سماجی اور مذہبی ٹھیکیداروں کو للکارا ہے جو اسلامی خدمات اور انسانی خدمات میں فرق کرتے ہیں انہیں کیوں معلوم نہیں کہ آقا و مولا رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمت المسلمین نہیں ہیں رحمت اللعالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نہ ماننے والوں کا بھی رب ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔
محترمہ بلقیس ایدھی نے بتایا ہے کہ ایدھی کے سوگ میں ایک دن بھی ہمارا کوئی دفتر بند نہیں ہوا۔ میرے عزیز دوست اور اینکر مین فہیم تارانی نے بہت اچھی بات کی کہ ایدھی کے لئے ایک دن سوگ منانے کی بجائے ہر بندہ ایک دن کی تنخواہ یا کمائی ایدھی فائونڈیشن میں چندہ دے دیتا تو ایدھی کی روح خوش ہوجاتی۔
فیصل ایدھی نے بڑے دکھ سے بی بی سی کو بتایا اور یہ الفاظ فیصل ایدھی کے ہیں کہ ملائوں نے سرمایہ داروں سے مل کر ایدھی صاحب کو پریشان کیا۔ کبھی قادیانی، کبھی کافر، کبھی آغاخانی بنا دیا۔ مگر انہوں نے انسانیت کی خدمت کی معرکہ آرائی جاری رکھی۔
برادرم توفیق بٹ کے کالم’’جی بھر کے رو‘‘ برادرم منصور آفاق کی خوبصورت اور جامع نظم پر مشتمل ہے۔ یہ آنسوئوں کے سوز و گداز میں گُندھی ہوئی دل میں اتر جانے والی شاعری ہے۔ نظم عظیم تر ایدھی کی یاد سے دل کو آباد رکھنے کے لئے لکھی گئی ہے۔
الوداع اے روشنی اے روشنی
آخری ہیں ہچکیاں جی بھر کے رو
کر روایت پھر بیاں جی بھر کے رو
ظالموں کے درمیاں جی بھر کے رو
تیری منزل کھو گئی ہے قبر میں
راستوں کے ہمسفر جی بھر کے رو
دانشور اور لیڈر ایڈووکیٹ اعتزازاحسن نے نوائے وقت میں عظیم اور بہادر صحافی کالم نگار وارث میر پر بہت زبردست مضمون لکھا ہے۔ اس زندہ تحریر میں ایک شعر ہی کافی تھا۔ اس لاوارث معاشرے میں وارث میر اپنے نام کے سارے معانی جانتا تھا۔ اسی جولانی میں وہ بڑی استقامت اور دیانت سے ڈٹا رہا۔ اس کا نام لینے والے بہت تنگ نظر ہیں تعریف کرنے والا آدمی اُن کے لئے ذرا سے تنقیدی جملے لکھ دے تو وہ ہمیشہ کے لئے دشمنی کے دائرے میں چلے جاتے ہیں جبکہ زندگی دائروں میں محدود نہیں ہے۔ بے کناری اور ہمکناری کے امتزاج سے بنی ہوئی بے قراری اور سرشاری ہے۔ وارث میر اسی مزاج کا لکھاری ہے۔ وارث میر نے مشکل میں زندگی گزاری، مشکل کو آسانی بنایا بلکہ آسودگی بنایا اور خوش رہا، سرخرو رہا۔ میں نے وہ شعر تو سنایا ہی نہیں جو اعتزازاحسن نے اپنی تحریر میں لکھا ؎
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
وارث میر سے محبت کرنے والے سوچیں کہ وہ بے دھیانے میں ’’کفر‘‘ تو نہیں کررہے ہیں۔ ایدھی صاحب کے لئے بھی یہی سمجھا جاتا رہا۔ برادرم سعید آسی نے لکھا ہے ہمارے تو دین اسلام کی بنیاد ہی شرف انسانیت ہے جس کی تاثیر صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔ انسانوں کی بھلائی بھی مقدم ہے اور یہ اللہ کا فرمان ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
اہل زمیں میں مسلمان ہیں اور سب انسان ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو اس میں ماں کے لئے رنگ و نسل اور مذہب کی کوئی تخصیص نہیںہے۔ ناروے میں کسی شخص کی جنت پاکستان کی کسی عورت کے قدموں تلے تو نہیں ہوسکتی۔ یہ شعر بھی آسی صاحب کے کالم میں ہے۔
مسجد ڈھا دے مندر ڈھادے ڈھادے جو کچھ ڈھیندا
اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں سوہنا رب دلیں وچ رہندا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...