خواتین سے تعصب برتنے کا الزام برطانوی شرعی کونسلوں پر تنقید

Jul 13, 2016

لندن (بی بی سی) برطانیہ میں شادی شدہ لڑائی جھگڑوں کے مقدمات میں ثالثی کرنے والی شرعی کونسلوں کو خواتین کے خلاف تعصب کرنے کے الزامات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح کی عدالت کا فیصلہ برطانیہ میں قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ ان کونسلوں کے کوئی قانونی اختیارات نہیں ہوتے ہیں۔ ان علما کے فیصلوں کو اخلاقی اور ثقافتی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے تاہم کچھ دعوے سامنے آئے ہیں جن کے مطابق کچھ شرعی کونسلیں زبردستی کی شادیوں کو قانونی قرار دیتی ہیں اور خواتین کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کرتی ہیں۔ خیراتی تنظیم ’مسلم ویمنز نیٹ ورک یوکے‘ کی خاتون سربراہ شائستہ گوہر کو خدشہ ہے کہ خواتین سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں نامناسب سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقدمات میں خواتین کو تعصب کا شکار بنایا گیا ہے۔ کئی واقعات میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے شوہروں کے ساتھ صلح کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شرعی کونسلوں کی نگرانی نہیں کی جاتی ہے اس لیے ان کی کارروائیوں کا جائزہ لینا مزید مشکل ہو جاتا ہے، بالخصوص چھوٹی کونسلیں جو کسی مسجد سے جڑی نہیں ہوتی ہیں۔ مئی میں برطانوی حکومت نے ایک آزاد رویو تشکیل کروانے کا اعلان کیا تھا جو انگلینڈ اور ویلز میں شریعت کے قوانین کا جائزہ لے گا کہ کیا یہ برطانیہ کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور کیا انہیں خواتین کے خلاف تعصب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے؟ وزارت داخلہ کا کہنا ہے جائزے کے نتیجے کے لحاظ سے وہ اس بارے میں قانون سازی بھی تجویز کر سکتا ہے۔ کونسلوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہت ضروری سروس فراہم کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں