بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی صہیونی ریاست اسرائیل گئے جہاں تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے مودی کا پرتپاک استقبال کیا، یہ دورہ ہمارے لئے کئی لحاظ سے اہم ہے، ایک تو اس لئے کہ ستر سالہ تاریخ میں کسی بھارتی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ¿ اسرائیل ہے‘ دوسرے اس لئے کہ مودی کے پرگرام میں نہ تو کسی فلسطین کے لیڈر سے ملنا شامل تھا اور نہ وہ کسی دوسرے عرب ملک کی سرزمین پر قدم رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا، اس سے ہمارے عرب بھائیوں خصوصاً فلسطینیوں کو بھارتی ہندو کے دل میں اپنی محبت اور اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے آج اگر یاسر عرفات زندہ ہوتا تو منہ چھپا کر رو رہا ہوتا کیونکہ وہ بھارت کو خوش رکھنے کے لئے آزادی¿ کشمیر کا نام لینا بھی گناہ تصور کرتا تھا، ہمارے عرب بھائیوں کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے جو پاکستان کو برطانوی سامراج کی تخلیق اور عرب دشمنی تصور کرتے رہے ہیں لیکن بھارت کو اپنا ہمدرد اور غمخوار سمجھتے آرہے ہیں۔ نریندر مودی نے ہمارے لئے جہاں اور مفید مواقع پیدا کردئیے ہیں وہاں عربوں کی غلط فہمی دور کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے مگر اس سے فائدہ کون اٹھائے گا؟“ ہمارے سفارتکار تو گونگے اور عربی زبان سے ناواقف ہیں!
یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ یہودی بھی اس طرح نسل پرست اور اسلام دشمن ہیں جس طرح بھارت کے نام نہاد اونچی ذات کے ہندو برہمن اور بنیا نسل پرست اور پاکستان دشمن واقع ہوئے ہیں، یہ دونوں نسل پرست اور اسلام دشمن گروہ اپنے اپنے سودی سرمایہ کے ڈھیر بھی رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور دہشت گردی کو ہوا دینے میں بھی یہ سرمایہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں اور اب یہودی اور برہمن یہی سودی سرمایہ اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں کو مٹا دینے کے لئے اسلحہ سازی پر خرچ کریں گے، دونوں میں یہ معاہدے ہوگئے ہیں کہ اسرائیل اسلحہ بنائے گا اور بھارت کو سپلائی کرے گا، لیکن ہمارے جو لوگ مودی کے اس دورہ کو ہندو یہودی روابط کی ابتدا سمجھتے ہیں وہ تاریکی میں ہیں! یہ روابط نئے نہیں بلکہ صدیوں پرانے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے مذہبی لوگ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور گلے کاٹنے کے جتن کررہے ہیں جبکہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی تحقیر و تذلیل میں لگے ہوئے ہیں اور کرسی کی جنگ اور کرپشن کی غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، کسی کو یہ احساس بھی نہیں کہ یہودی اور بت پرست تو پندرہ سولہ صدیوں سے اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے میں لگے ہوئے ہیں، دور کیوں جائیں موجودہ دور میں بھی بت پرست اور یہودی روابط اور تعاون جاری ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی یہ سرگرمیاں ہمیں نظر نہیں آتیں، کہوٹہ پر حملے کے لئے اسرائیلی جہازوں کی سری نگر میں آمد تو کل کی بات ہے، ان ہر دو نسل پرست اور اسلام دشمن گروہوں کی باہمی خفیہ ساز باز مسلسل جاری ہے۔ نام نہاد ہندو‘ یہودی دوستی اور تعاون دراصل آخری اور فیصلہ کن غزوہ احزاب ہے جسے نسل پرست دونوں گروہ، ہندو اور یہودی سودی سرمایہ سے منظرم کیا گیا ہے، اس کا ایک پہلو بدامنی‘داخلی عدم استحکام کا وہ سیلاب ہے جو شیعہ سنی تصادم اور نسل پرستی کو ہوا دینے کی شکل دیکر مسلمانوں کو باہمی جنگ، قتل و غارت اور نفرت کی آگ میں دھکیلنے پر منتج ہوگا، اس آخری جنگ احزاب کا دوسرا پہلو وہ دو خوفناک طوفان ہیں جن میں سے ایک کا مرکز ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ ہے جو آج عالمی صہیونیت کے سودی سرمایہ کے قبضہ میں ہے اور دوسرا مرکز پرانا یورپی سامراج ہے جس نے صلیبی لباس میں تین چار سو سال تک عالم اسلام کو غلام بنا کر لوٹ چکا ہے، ہندو اور یہودی نسل پرست اور اسلام دشمن گروہ اس سیلاب سے عالم اسلام کو کمزور کرکے ان دو طوفانوں کے نرغے میں دینے پر تلے ہوئے ہیں، حضرت علامہ اقبالؒ کے زمانے میں تو صرف یورپ کی رگِ جاں پنجہ¿ یہود میں تھی مگر اب انکل سام امریکہ کی رگ جاں بھی پنجہ¿ یہود میں ہے، بت پرست بھارت کا نسل پرست برہمن بھی اس کھیل میں شامل ہوچکا ہے۔
نریندر مودی ٹرمپ کے گلے پڑ کراور اس کے کندھے سے لٹک کر بہت پھول چکا ہے، اب وہ گجراتی دہشت گردی کے بل پر بھارت کو پردھان منتری تو بن چکا ہے اس لئے ایک طرف تو وہ ہندو مہاسبھا کے پرانے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے بھارت کو جنوبی ایشیا کی واحد ہندو ریاست بنانے کے لئے مسلمانوں کو ختم کرنے کی تحریک چلا چکا ہے، گاﺅ رکھشا کے نام پر بھارت اور کشمیر میں اس کا عملی مظاہرہ کررہا ہے اور ٹرمپ کو خوش کرنے کے لئے چین سے بھی پنگا لے رہا ہے، اس تسلسل میں وہ نیتن یاہو سے کھلے تعاون کا اعلان کرکے بھارت کو سپر پاور بنوانے کی فکر میں ہے، مگر اس میں وہ بری طرح ناکام ہوگا۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر آنجہانی چینی وزیراعظم چو این لائی نے جگ جیون رام کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا۔ سقوط ڈھاکہ اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔ آگے چل کر بھارت کے اندر ایسے کئی سقوط آنے والے ہیں، اب چو این لائی کی اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے مگر اب پاکستان کو بھی ہوش میں آنا ہوگا، عالم عرب میں اور باقی دنیا میں نریندر مودی کی ان حماقتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے، مودی کو دیکھ کر ہمارے عرب بھائی بھی ہماری بات سمجھیں گے اور باقی دنیا کو بھی نسل پرست ہندو کی اسلام دشمنی اور انسانیت سوزی سے آگاہ کیا جاسکتا ہے! یہ ایسا وقت ہے کہ مودی نے بھارت میں 1947ءوالے حالات پیدا کردئیے ہیں اور ہم آسانی سے کشمیر کو بھی آزاد کراسکتے ہیں اور نام نہاد اونچی ذات کے ہندو برہمن اور بنیا کے تمام حساب چکا سکتے ہیں!