پیپلز پارٹی کے پرانے کارکنوں کی طرح نواز شریف کے چاہنے والے بھی اپنی قیادت کے بارے میں لکھے کالموں کو پڑھنے کے بعد برافروختہ نہیں ہو جاتے۔ برداشت سے کام لیتے ہیں۔ ان میں سے محض چند ہی طیش میں آکر وہ رویہ اور زبان اختیار کرتے ہیں جو عصرِ حاضرکے انقلابی جناب عمران خان صاحب کے پارسا شیدائیوں کا وطیرہ ہے۔ بدھ کی صبح مگر میرے لئے اس ضمن میں بہت دشوار ثابت ہوئی۔
اس روز چھپے کالم میں بہت سوچ سمجھ کر بیان کئے دلائل کے ساتھ میں نے اصرار کیا تھا کہ نواز شریف صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ ان کے استعفے کی طلب گار میری خواہش کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ میں ان کے خلاف پانامہ کے حوالے سے لگے الزامات کو درست سمجھتا ہوں۔
دُنیا بھر کے بے تحاشہ کاروباری طورپر کامیاب سمجھے جانے والے ادارے اور افراد ”آف شور کمپنیوں“ کے ذریعے سرمایہ کاری کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے عادی پائے گئے ہیں۔ شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں اہم ترین سوال میری نظر میں یہ تھا کہ ان میں لگایا سرمایہ نواز شریف نے دو مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پاکستان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے کمیشنز یا کک بیکس وغیرہ کے ذریعے تو اکٹھا نہیں کیا تھا۔
ریاستِ پاکستان کے 6 اہم اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نے نواز شریف اور ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں بہت سوالات اٹھائے ہیں۔ ان سوالات میں لیکن کہیں بھی اس شبے کا اظہار نہیں ہوا کہ نظر بظاہر فلاں برس نواز شریف کی جانب سے منظور کئے فلاں منصوبے کے بعد سے ان کے اثاثوں میں حیران کن حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا۔ صرف ایک مقام پر محض سرسری طور پر 80ءکی دہائی کا ذکر ہوا ہے جس کے آغاز میںجنرل ضیاءکے پنجاب میں لگائے گورنر جنرل جیلانی نے انہیں اپنی صوبائی کابینہ میں شامل کیا تھا۔
ٹھوس شواہد کے ساتھ JIT نے نواز شریف کو اپنا اقتدار رشوت کمانے کا ذریعہ بناتے ہوئے نہیں دکھایا ہے۔ اس کی رپورٹ کا اصل ہدف یہ ثابت کرنا نظر آیا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں نے اپنی آف شور کمپنیوں میں لگائے سرمایے اور اس کے ذریعے کمائے منافع کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے مبینہ طورپر کئی ”جعلی دستاویزات“ کا سہارا بھی لیا۔
نواز شریف صاحب اگر اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب نہ ہوئے ہوتے تو مذکورہ الزامات بھی کاروباری دُنیا کا معمول سمجھ کر نظرانداز کئے جاسکتے تھے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کی جانب سے متنازعہ بنائی سرمایہ کاری ویسے بھی خلیجی ممالک اور برطانیہ میں ہوئی نظرآتی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بارے میں اعتراضات بھی وہاں کی حکومتوں کو اٹھانا چاہیے تھے۔ خاص طورپر برطانیہ کی حکومت کو جو دنیا بھر میں ”مشکوک ذرائع“ سے حاصل کئے منافع کے تدارک کے لئے کئی بین الاقوامی معاہدے اور قوانین متعارف کروانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے کی دعوے دار بھی ہے۔
سپریم کورٹ کے روبرو JIT کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں البتہ اس سرمایہ کاری کے حوالے سے بہت سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالات کا مو¿ثر جواب دینا نواز شریف اور ان کے بچوں کی قانونی ذمہ داری ہے۔ نواز شریف اگر سیاست میں نہ ہوتے تو ہم اسے ایک کامیاب کاروباری خاندان کی قانونی مشکلات تصور کرتے ہوئے نظرانداز کرسکتے تھے۔ ہم اپنی توجہ ان سوالات پر دینے کو اس لئے مجبور ہیں کہ نواز شریف اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ ان کو یہ خوش بختی صرف ووٹ کی طاقت سے نصیب ہوئی ہے۔ جمہوری نظام کی بدولت جو ایک باقاعدہ لکھے آئین کے تحت چلایا جاتا ہے۔
باقاعدہ طورپر تحریر ہوئے ہمارے آئین میں وزیر اعظم کو اس ملک کا ”چیف ایگزیکٹو“ ٹھہرایا گیا ہے۔ اپنی اس حیثیت میں اس ملک کے دائمی اداروں میں بیٹھے عسکری اور سول افسران پرکڑی نگاہ رکھنا لہذا نواز شریف کی آئینی ذمہ داری ہے۔ یہ ”چیف ایگزیکٹو“ مگر جب گریڈ 18سے 20کے افسروں کے سامنے پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہوجائے تو ووٹ کی طاقت غیر متعلقہ ہوجاتی ہے۔ آئین ایک مذاق اور جمہوری نظام ”غریب کی جورو“ بنانظر آتا ہے۔
اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین اس تاثر کا پھیلاﺅ ہے کہ ووٹ کی طاقت سے پاکستان کے تمام اداروں پر ”بالادست“ کہلاتی پارلیمان میں بیٹھے لوگ ہوسِ زر میں مبتلا خود غرض لوگ ہیں جو نااہل ہی نہیں ناقابلِ علاج تک بدعنوان بھی ہیں۔
اس تاثر کی وجہ سے یہ خیال بھی تقویت پکڑتا ہے کہ ”اپنی ترکیب میں خاص“ پاکستانی قوم جمہوری نظام کی اہل ہی نہیں۔ اس ملک کو صرف ایک ڈنڈا بردار”دیدہ ور“ ہی راہِ راست پر چلائے رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص تاریخی اور سیاسی پسِ منظر میں لٰہذا،میری دانست میں یہ نواز شریف صاحب کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے منصب سے مستعفی ہوکر ایک عام شہری کی طرح پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو پیش ہوکر اپنی ذات اور بچوں پر JITکی جانب سے لگائے الزامات کا دفاع کرتے۔ ان کی جانب سے اس صورت میں ہوا دفاع یقینا بہت جاندار نظر آتا۔ اس ملک کے دیگر سیاست دانوں کو بھی یہ موقعہ فراہم کرتا کہ وہ خلقِ خدا کے سامنے یہ ثابت کرسکیں کہ پاکستان کی دائمی اشرافیہ انہیں پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ایسے اقدامات نہ اٹھانے پر مجبور کردیتی ہے جو پاکستان کی بقاءاور خوش حالی کے لئے بروقت اٹھانا ہر صورت لازمی ہیں۔
بدھ کی صبح اُٹھتے ہی مگر مجھے ٹیلی فون پر کئی گھنٹوں تک اپنے نواز شریف کے استعفیٰ کی خواہش پر مبنی کالم کا دفاع کرنا پڑا۔ بالآخر یہ کالم لکھنے کی خاطر مجھے اپنے فون کو Silent موڈ میں ڈال کر دوسرے کمرے میں رکھنا پڑا۔
مجھ سے بات کرنے والوں کی اکثریت کا اصرار تھا کہ نواز شریف نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود رہتے ہوئے بھی دُنیا کو یہ دکھایا ہے کہ پاکستان میں ایک مو¿ثر احتسابی نظام موجود ہے۔یہاں کی عدلیہ بہت طاقت ور اور آزاد ہے۔ اس کے حکم کی بدولت بنائی گریڈ 18 سے 20 تک کے افسروں پر مشتمل کمیٹی بھی ایک وزیر اعظم کو اس کے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے بھی اپنے روبروطلب کرسکتی ہے۔ اس کے خلاف ایک ”فرد جرم“ تیار کرسکتی ہے۔
ان لوگوں نے بہت زور یہ حقیقت اجاگر کرنے پر بھی دیا کہ نواز شریف اپنے منصب پر برقرار رہتے ہوئے بھی اپنے خلاف ایک ”زہریلی فردِجرم“ کی تیاری کو نہیں روک پائے۔
ایسی فردِ جرم تیار ہوجانے کے بعد انہیں وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہتے ہوئے سپریم کورٹ کے روبرو اپنے دفاع کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے اور میں نظر بظاہر ان کے اس حق کی راہ میں روڑے اٹکارہا ہوں۔ ”یاربّ وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات“ والا مصرعہ یا دکرتے ہوئے لہذا میں یہ کالم ختم کرتا ہوں۔
”یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات“
Jul 13, 2017