تحریک انصاف کی ترقی معکوس‘ فیورٹ چوتھے نمبر پر آ گئی

شہزاد چغتائی
کراچی میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر پی ایس 114 کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سعیدغنی نے اپ سیٹ کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ ضمنی انتخابات میں پانچ جماعتوں کا مقابلہ تھا لیکن مزدور کے بیٹے نے محلات میں رہنے والوں کو ہرادیا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کے حلقے میں آنے سے صورتحال سعید غنی کے حق میں پلٹ گئی اور ان کی پوزیشن مستحکم ہوگئی۔ ایم کیو ایم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کراچی پر کنٹرول کی لڑائی لڑ رہی تھی اس لئے یہ الیکشن دونوں جماعتوں کیلئے اہم تھا جس میں پیپلز پارٹی نے پیشرفت کی ہے۔ یہ باتیں تو پہلے ہی ہورہی تھیں کہ پی ایس 114 کا الیکشن 2018 کے عام انتخابات کے رجحانات کا تعین کرے گا اور کراچی کی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ووٹر گھروں سے نہیں نکلے۔ ٹرن آئوٹ کم رہا لیکن فاروق ستار نے ثابت کر دکھایا کہ ووٹر گھروں سے نکلے اورکراچی کے ووٹرز نے ایم کیو ایم لندن کی اپیل مسترد کردی اور کامران ٹیسوری کو ووٹ دینے گھروں سے نکل آئے۔ پیپلز پارٹی کی کامیابی پر نہ صرف پیپلز پارٹی نے جشن منایا بلکہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم لندن نے بھی خوشیاں منائیں۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ الطاف حسین کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتی ہے۔ لیکن وہ ناکام رہی ۔
ادھر ایم کیو ایم پاکستان کے حامی حلقے کہتے ہیں کہ پی ایس 114 میں مسلم لیگ ن کی نشست پر الیکشن ہوئے تھے اس لئے وہ ہماری نشست نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کی کامیابی یہ تھی اس نے 18ہزار سے زائد ووٹ لئے اور دوسرے نمبر پر رہی۔ ان حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ رینجرز کو پولنگ سے ایک گھنٹہ قبل پولنگ اسٹیشنوں سے ہٹادیا گیا تھا اگر رینجرز آخری وقت تک پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہوتی تو دھاندلی نہیں ہوسکتی تھی۔ رینجرز کی غیر موجودگی میں ٹھپے لگائے گئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار گروپ کے امیدوار کو روکنے کیلئے ایم کیو ایم لندن ایک ماہ سے سر توڑ کوششیں کررہی تھی اس دوران ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے عوام کے نام کئی آڈیو اور وڈیو پیغامات جاری کئے جن میں عوام سے الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی ۔ کراچی میں سیاسی حلقے ان عوامل پر غور کررہے ہیں کہ پی ایس 114 سے ایم کیو ایم کیوں ہاری۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کامران ٹیسوری لندن کے بائیکاٹ کے اعلان کے باعث ہارے۔ اس خیال کو دوسرے سیاسی پنڈت چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کامران ٹیسوری کو 18ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایم کیو ایم لندن کی اپیل کامیاب نہ ہوئی اور ووٹر گھروں سے نکلے۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے غیر موزوں امیدواروں کوٹکٹ دیے۔ پیپلزپارٹی واحد جماعت تھی جس نے حلقہ میں رہنے والے کو امیدوار بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ پیپلز پارٹی نے مزدور کے بیٹے کو ٹکٹ دیا۔ دوسری جماعتوںنے محلات میں رہنے والوںکو امیدوار بنایا۔ پی ایس 118 کے نتائج اس لحاظ سے حیران کن نہیں ہیں کہ عموماً ضمنی انتخاب میں حکمراںجماعت کامیابی حاصل کرتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہوتا اور حکمراں جماعت وسائل اور وعدوں سے مالا مال ہوتی ہے۔پی ایس 114 سے سعیدغنی کی کامیابی کو آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کی کامیابی قراردیا۔ جنہوں نے عرفان اللہ مروت کو پیپلزپارٹی میں قبول کرنے سے انکار کردیاتھا ۔ اس موقع پر عرفان اللہ مروت نے کہا تھا کہ ان کے خلاف سعید غنی سازش کررہے ہیں اور سعیدغنی کی نظریں پی ایس 114 پر ہیں۔ سیاسی حلقوں کو یقین ہے کہ سعیدغنی کی جگہ عرفان اللہ مروت امیدوار ہوتے تو ان کیلئے سیٹ نکالنا مشکل ہوجاتا ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ عرفان اللہ مروت حلقے میں نہیں رہتے اور عرفان اللہ مروت کو جو لوگ جتواتے تھے وہ اب ان کے ساتھ نہیں۔ تحریک انصاف نے عرفان اللہ مروت کی حمایت تو حاصل کرلی لیکن عرفان اللہ مروت کے ساتھیوں سے رابطہ نہیں کیا۔پی ایس 114 میں 5جماعتوں کے درمیان مقابلہ تھا اور کوئی بڑے سے بڑا تجزیہ نگار یہ پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔سعید غنی ڈارک ہائوس ثابت ہوئے۔ یہ حلقہ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کا ہے جہاں سے وہ 6 بار جیت چکی تھی۔ اس دوران تحریک انصاف نے بھی دھماکہ خیز انٹری دی تھی پی ایس 114 سے ایم پی ایم رہنے والے دو امیدواروں سردار عبدالرحیم اور عرفان اللہ مروت نے تحریک انصاف کی حمایت کردی تھی۔ جماعت اسلامی نے 2002ء کے الیکشن میں 22ہزار ووٹ لئے تھے۔2013ء کے الیکشن میں بھی جماعت اسلامی نے 9ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ ان حالات میں سعید غنی کی کامیابی بڑی تبدیلی تھی۔ بعض حلقے سعید غنی کی کامیابی کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو دیتے ہیں جن کے حلقے میں آنے اور جلسہ عام کے بعد نقشہ بدل گیا خصوصاً خواتین ووٹرز بڑی تعداد میں نکل آئیں۔ گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات میں سعید غنی کے حلقہ میں پیپلز پارٹی کے بلدیاتی امیدواروں نے 20ہزار ووٹ لئے تھے اور ایم کیو ایم کے بلدیاتی امیدواروں نے 21ہزار 500ووٹ لئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سعید غنی کو بہت حوصلہ دیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ حلقہ چونکہ منی پاکستان ہے اس لئے وہ ایم کیو ایم کو ہراسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف پیشگی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا بلکہ وہ پہلے دن سے فیورٹ تھی لیکن تحریک انصاف سابق وزیر عرفان اللہ مروت کی حمایت کے باوجود نتائج نہیں دے سکی جس کی وجہ ناتجربہ کاری تھی۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے منظم ہوکر مقابلہ کیا۔ اتوار کو پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر جہاں ووٹروں کے درمیان بدمزگی اور تلخ کلامی کے واقعات ہوئے وہاں سیاسی جماعتیں آمنے سامنے آگئیں۔ سیاسی رہنما اور امیدوار آپس میں الجھ پڑے انہو ں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔ پی ایس 114 میں سارے دن شور شرابہ ہنگامہ آرائی ہوئی حتیٰ کہ شام کو پولنگ ختم ہونے کے بعد منظور کالونی میں مسلم لیگ ن کے امیدوار علی اکبر گجر اور تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل آمنے سامنے آگئے۔ انتخابات کے دوران مہاجر اور سندھی کارڈ کی بازگشت بھی سنائی دی۔ تحریک انصاف کے عارف علوی نے کہا کہ مہاجر اور سندھی کارڈ نہیں چلے گا۔پی ایس 114 سے پہلے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان پی ایس 127 میں بھی مقابلہ ہوا تھا جہاں ایم کیو ایم ہار گئی تھی۔

ای پیپر دی نیشن