پاکستان ۔۔۔۔شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ رُکن

جون 2017ءکو پاکستان کی تاریخ کا اہم مہینہ شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس مہینہ قزاقستان کے دارلحکومت اُستانہ میں شنگھائی تعاون کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کو باقاعدہ رکن بنا دیا گیا۔ بظاہر اس سربراہی اجلاس میں میزبان قزاقستان کے صدر تھے لیکن اس کی تنظیم کی بنیاد رکھنے اور اس کو پروان چڑھانے میں روس اور چین کا اہم کردار ہے۔ سولہ سال قبل روس اور چین کی قیادت میں ”شنگھائی تعاون کی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس میں پانچ ممالک روس، چین، قازقستان، کرگزستان اور تاجکستان اس کے باقاعدہ رکن تھے۔ 5 سال بعد2001ءکو ازکستان کو چھٹے رکن کی حیثیت سے رکنیت ہو گئی۔ پاکستان اس وقت خواہش کے باوجود اس کو باقاعدہ رکنیت حاصل نہ ہو سکی۔ تقریباً 12سال قبل پاکستان کو SCOکی باقاعدہ رکنیت تو نہ ملی مگر امکانات پیدا ہوگئے کیونکہ پاکستان کو SCO میں ”آبزرور“کا درجہ دے دیا گیا ۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت بھی اس کوشش میں تھا کہ اس کو SCOکا باقاعدہ رکن بنا دیا جائے مگر اس کو بھی صبر کا گھونٹ پینا پڑا۔
پاکستان کے چین اور روس سے خوشگوار تعلقات کی بدولت اور پاکستان حکومت کی سر توڑ کوششوں کے بعد بالآخر پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گئی۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کا رُکن بنانے میں روس اور چین نے جو اہم کردار ادا کیا اس کا اندازہ روسی صدر پیوٹن کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ ”پاکستان کو ہر چیلنج سے نمٹنے میں مدد دیں گے“ 16سال سے جاری کوششوں کو پارآور کروانے میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف بلاشبہ تعریف کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی فضاءکو دوستی کے تعلقات میں بدلا۔ بھارت نے روس اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کا ہر موقع پر فائدہ اُٹھایا لیکن پاکستان کی بہتر سفارتکاری کی بدولت اس دفعہ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ روس اور چین نے جنوبی ایشیاءمیں توازن کو برقرار رکھنے کی تنظیم کا باقاعدہ رُکن بنا دیا۔ شنگھائی کی تعاون تنظیم کے اہم اغراض میں معاشی و تجارتی تعاون کے علاوہ خطے میں دہشت گردی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا اور بین الاقوامی تصادم کا پُرامن حل تلاش کرنا بھی اس کا اہم مقصد ہے۔ پاکستان چونکہ اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کا خواہاں ہے لہذا شنگھائی تعاون تنظیم میں اس کی رُکنیت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس تنظیم کا نصب العین پُرامن علاقائی تعاون ہے تاکہ رُکن ممالک کے سیاسی مقاصد کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے جسکا اعتراف مغربی ممالک بھی کرتے ہیں۔ پاک فوج کی قربانیوں، حکومت کے تعاون اور عوام کے عزم و ولولے کی بدولت ہم دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ابھی بہت سے ممالک ہیں جن کو دہشت گردی کی عفریت کا سامنا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں باقاعدہ شمولیت سے اس تنظیم کے باقی ممالک پاکستان کے وسیع تجربے سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان، چین اور روس کی پاکستان میں مشترکہ جنگی مشقیں بھی اس امر کی کرتی ہیں کہ پاکستان کے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کیا ہے اور باقی ممالک بھی اس تجربے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس کے مشرقی و مغربی پڑوسی یعنی بھارت و افغانستان سے تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ ہر موقع غنیمت جان کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ رکن بننے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے عالمی رہنمائی سے جو خطاب کیا اس میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ سبھی ہمسایوں کو امن، دوستی آشنی کا پیغام دیا ہے۔ اس خطاب کا ایک فائدہ یہ پہنچا کہ وزیراعظم کا بھارتی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کا دورانیہ مختصر تھا لیکن ان کشیدہ حالات میں وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر کو باور کروایا کہ دہشت گرد افغانستان کو اپنا محفوظ ٹھکانہ سمجھتے ہیں اور وہا ں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں جو قابلے مذمت ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے الزامات کے سلسے کو بند کرنے کے ساتھ ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان نے افغان صدر کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ہر مشکل گھڑی میں افغانستان کے ساتھ ہیں اور وہ پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ افغان صدر کو پاکستان کی افغانستان کے لیے امن کوششوں کا معترف ہونا چاہیے ۔
وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کا رُکن بننا اہم کامیابی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہو چکی ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ SCOکے تمام رُکن ممالک کی آبادہ ساڑھے تین ارب ہے اور جی ڈی پی کا دنیا کے 25% جی ڈی پی سے تجاوز کر چکا ہے پاکستان کی اور بھارت کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے خوشگوار تبدیلیاں متوقع ہیں۔ بھارت پر مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں دباﺅ بڑھے گا اور پاک افغان تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ سی پیک اور ون ویلڈون روڈ کے منصوبے میں پاکستان اور چین کے معاشی تعلقات مستحکم کر دیئے ہیں۔ اس تنظیم میں شمولیت سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ مختصراً یہ کہ اس تنظیم میں شمولیت سے خطے میں نہ صرف امن ہو گا بلکہ خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہو گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے امکانات روشن ہونگے۔ اگر بھارت بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو بلاشبہ یہ فورم دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن