کراچی (وقائع نگار) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت 276 بلین روپے کے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) منصوبے میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کر کے اس میں تاخیر کر رہی ہے انہوں نے یہ بات وزیراعلیٰ ہائوس میں کے سی آر سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ و اطلاعات سید ناصر شاہ‘ چیئر مین پی این ڈی محمد وسیم‘ سیکرٹری ٹرانسپورٹ رحیم سومرو و دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ٹی ڈبلیو پی)کے ساتھ وفاقی وزیر کی زیرصدارت اجلاس منعقد ہواتھا جس میں اس منصوبے کو کلیئر کیاگیاتھا مگر پوسٹ سی ڈی ڈبلیو پی اجلاس میں ایک رکن نے وفاقی وزیر کو سپر سیڈ کرتے ہوئے چند غیر ضروری اعتراضات اٹھائے جن کا صوبائی حکومت نے تدارک کردیا۔اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وفاقی حکومت نے یقین دلایا تھا کہ ایکنک اجلاس جلد بلایا جائے گا مگر اب تک ایسا کوئی بھی اجلاس نہیں بلایاگیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بھی بتایاگیا کہ انسداد تجاوزات آپریشن جس کے تحت کے سی آر کے راستے میں قائم تجاوزات صاف کی جارہی تھیں اْسے بھی روک دیاگیا ہے۔ ڈی ایس ریلویز کراچی نے ڈی سی سینٹرل کراچی کو آپریشن بند کرنے کے لیے خط لکھا ہے کیونکہ وہ اس کام کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا اس آپریشن کو روک دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سید ناصر شاہ کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ کے سی آر روٹ پر انسداد تجاوزات آپریشن دوبارہ شروع کریں انہوں نے کہاکہ میں کمشنر کراچی اور پولیس کو روٹ کو خالی کرانے کیلئے ہدایت جاری کر رہا ہوں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی تاخیری حربوں کی اجازت نہیں دیں گے آج (جمعرات) میں وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کو ایک خط لکھوں گا اور اس میں ان سے کہوں گا کہ وہ کے سی آر کے منصوبے کی منظوری کیلئے ایکنک کا اجلاس بلائیں اور سی ڈی ڈبلیو پی کے اراکین سے بھی کہیں کہ وہ وفاقی وزیر کے فیصلوں پر غیر ضروری اور غیر حقیقی اعتراضات اٹھانا بند کریں۔ واضح رہے کہ کے سی آر کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 276 بلین روپے ہے اور اس کا روٹ 43.2 کلومیٹر طویل ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث صوبے میں زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے لہٰذا ان کی حکومت نے چھوٹے آبادگاروں کو سولر انرجی سے چلنے والے ٹیوب ویل کی فراہمی کی منصوبہ بندی کی ہے اس سے ہماری زرعی معیشت کو بہتر اور مستحکم بنانے میں مدد ملے گی انہوں نے یہ بات وزیراعلیٰ ہائوس میں محکمہ زراعت اور محکمہ آبپاشی کی مشترکہ اجلاس صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں چیئرمین پی این ڈی محمد وسیم ‘ پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ سندھ سہیل راجپوت‘ سیکرٹری آبپاشی جمال شاہ‘ سیکرٹری زراعت ساجد جمال ابڑو و دیگر نے شرکت کی۔ سندھ حکومت نے تین مختلف محکموں کے ذریعے 7.8 ارب روپے مالیت کے سولر انرجی ٹیوب ویلوں اور پمپنگ اسٹیشنوں کی 11 اسکیمیں شروع کی ہیں اور اس میں سے 2630.505 ملین روپے جون 2017ء تک استعمال ہو چکے ہیں‘ حکومت نے نئے مالی سال کیلئے 2623.858 ملین روپے مختص کئے ہیں‘ محکمہ زراعت کی سولر اسکیموں میں 100 ملین روپے کی لاگت سے خیرپور میں پی پی پی موڈ کے تحت سولر ڈی ہائیڈریشن پلانٹ کا قیام‘ سندھ بھر میں کسانوں کو سبسڈی نرخوں پر سولر واٹر پمپس/ ٹیوب ویلوں کی فراہمی شامل ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بہت اہم منصوبہ ہے جس پر ایک ہزار ملین روپے کی لاگت آئے گی جس میں سندھ حکومت 802 ملین روپے برداشت کرے گی جبکہ کاشتکاروں کا حصہ 198 ملین روپے ہو گا۔ چیئرمین پی این ڈی محمد وسیم نے کہا کہ 17-2016ء کے دوران حکومت نے 238.142 ملین روپے مختص کیے اور اس میں یہ تمام رقم استعمال ہوچکی ہے‘ بقایا رقم563.858 ملین روپے رواں مالی سال کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تجویز پیش کی کہ سولر پمپس کیلئے رقم بینکوں کے ذریعے دی جائے۔ چیئرمین پی این ڈی محمد وسیم نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی 2 ارب روپے کی ایک اسکیم ہے جس کے تحت سولر ٹیکنالوجی کے ذریعے آف گرڈ علاقوں‘ اسکولوں اور دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جائے گی اور اب تک حکومت 775ملین روپے خرچ کر چکی ہے جبکہ اس سال 850 ملین روپے مختص کئے گئے تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیئرمین پی این ڈی کو ہدایت کی کہ وہ محکمہ آبپاشی اور محکمہ زراعت کا ایک مشترکہ اجلاس بلائیں اور آبادگاروں کو سبسڈی کے تحت سولر انرجی ٹیوب ویل دینے کیلئے کارروائی کو حتمی شکل دیں انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ سولر سسٹم کے کام کا ٹاسک ایک محکمہ کو دیں تاکہ ڈوپلیکیشن سے بچا جا سکے۔