اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وزیراعظم نواز شریف کی پیشی کے موقع پر ان سے جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی تفصیلمنظر عام پر آگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 15 جون 2017ءکو جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان سے جے آئی ٹی نے 14 سوالات پوچھے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھا گیا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے تقاریر میں کہا کہ عزیزیہ گلف اسٹیل کا ریکارڈ دستیاب ہے لیکن آپ نے یہ ریکارڈ دیا نہیں ؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ یقین نہیں شاید اسپیکر کو دیا ہو۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ میں اپنے بچوں کی طرف سے جمع کروایا گیا ریکارڈ دیکھا ہے؟وزیراعظم نے جواب دیا کہ میں نے یہ ریکارڈ دیکھا نہیں لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ ریکارڈ درست ہے۔جے آئی ٹی نے دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی نئی دستاویز ساتھ لائے ہیں؟جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم وہ دے چکے ہیں۔سوال نمبر 4 میں جے آئی ٹی نے پوچھا کہ آپ کو 1999ء میں ایون فیلڈ پراپرٹی کی ا سٹیٹمنٹ سے متعلق کیا معلوم ہے؟ جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے متعلق سنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں ہےکہ یہ ٹرمز کیا تھیں۔جے آئی ٹی کے سوال نمبر 5 میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے 2005ء میں فیملی سیٹلمنٹ کا حوالہ دیا؟ کیا گلف اسٹیل اور ایون فیلڈ کا معاملہ آپ کے زیر بحث آیا؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ جی ہاں! تب سے یہ میرے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے پاس ہے۔ میرے خیال میں حسن نواز اس کے مالک ہیں لیکن مجھے پورا یقین نہیں ہے۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ حسین ان اپارٹمنٹس کی ملکیت ظاہر کرتے رہے ہیں مگر یہاں دہائیوں سے حسن نواز رہائش پذیر رہے، کیا یہ عجیب نہیں ہے؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ بھائیوں کے درمیان یہ غیر عمومی نہیں ہے۔سوال نمبر7 میں پوچھا گیا کہ کیا حسین نواز اور مریم کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں آپ کو علم ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میرے علم میں ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی بات نہیں ہے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم سے دریافت کیا کہ کیا آپ نیشنل بینک کے سعید احمد کو جانتے ہیں؟ کیا کبھی ان کے ساتھ کوئی کاروبار کیا؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ میں سعید احمد کو لمبے عرصے سے جانتا ہوں لیکن کوئی کاروبار نہیں کیا۔سوال نمبر9 میں پوچھا گیا کہ کیا آپ قاضی خاندان کو جانتے ہیں؟ جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ جی میں انہیں نہیں جانتا،میں بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں سب کو یاد نہیں رکھ سکتا۔ جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا آپ شفیع سعید کو جانتے ہیں؟وزیراعظم نے جواب دیا کہ جی لمبے عرصے سے جانتا ہوں لیکن ان کے ساتھ بھی کاروبار نہیں کیا۔سوال نمبر 11 میں پوچھا گیا کہ کیا سال 2002-2001میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں رمضان اور چوہدری شوگر ملز سے قرض لے کر ادائیگی کی گئی ؟اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ اس سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ کوئی قرض تھا۔اس معاملے کا علم نہیں ہے۔جے آئی ٹی نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی خاندان کے کسی فرد کو بیرون ملک رقم بھیجی؟ اس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ نہیں میں نے کبھی کسی خاندان کے فرد کو بیرون ملک رقم نہیں بھیجی۔ جے آئی ٹی کے سوال نمبر 13 میں وزیر اعظم سے دریافت کیا گیا کہ ہل میٹل سے حاصل رقم کا کوئی حصہ سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا؟ جس پر وزیراعظم نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں کیا، لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو یہ جرم ہے۔سوال نمبر14 میں جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا یہ غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ نہیں؟ اور اس سوال کا وزیر اعظم نواز شریف نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ فلیٹس بیرئیر سرٹیفکیٹ کیسے ٹرانسفر کئے؟ وہ تقریروں میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر کرنے پر بھی مطمئن نہیں کرسکے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر اپنے ہاتھ میں انکم ویلتھ ٹیکس ریٹرن لائے۔ جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد، اور تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے دعوی کیا تھا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں واضح ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا، 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا ۔ نواز شریف کا اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ کاروبار سے علیحدگی کا مطلب خود کو انتظامی امور سے الگ کرنا تھا نہ کہ کمپنی کے مالی مفادات سے، کیونکہ مالی مفادات سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کیسے گزارا کیا جا سکتا ہے۔ لندن میں موجود جائیدادوں کے حوالے سے وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ 1989 اور نوے کی دہائی میں لندن گئے تھے تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا تھا مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین جو لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے، ان دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے، میں جانتا ہوں ہم رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان معاملات کو حسین دیکھتا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتظام شیخ الثانی اور میرے والد نے کیا تھا، تاہم مجھے یہ نہیں پتہ کہ بیئریئر سرٹیفکیٹس کس طرح منتقل ہوئے۔
وزیراعظم سے 14 سوالات پوچھے گئے‘ ٹال مٹول‘ قیاس آرائیوں سے کا م لیتے ر ہے
Jul 13, 2017