اسلام آباد (نامہ نگار) سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ملک میں انتخابی عمل کے حوالے سے مختلف سوالات سامنے آ رہے ہیں، مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ انتخابات ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئے ہیں، پولنگ کا وقت بڑھانے کے لئے دوسری جماعتوں سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی، آج کے دن تک کسی امیدوار کو سکیورٹی نہیں دی گئی، ہمیں بتایا جائے جائے کہ الیکشن کمشن نے نگران حکومت کواس حوالے سے کیا ڈائریکشن دی ہے، نیب کے چشمے میں صرف دو پارٹیاں ہی نظر آتی ہیں تیسری پارٹی کیوں نظر نہیں آرہی ہے،کیا پارٹیاں چھوڑ کر دوسری طرف جانے والے لوٹے پاک اور پوتر ہو گئے ہیں۔ نکتہ¿ اعتراض پر سابق چیئر مین سینیٹ نے کہا کہ ایوان بالا کا اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ جس وقت ایوان کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اس وقت بعض ایسے معاملات سامنے آئے جو ایوان میں زیرغور آنے چاہئے تھے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بیان دیا تھا کہ بعض بیرونی قوتیں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں بعد میں وہ اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے۔ نگران وزیر داخلہ نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔ خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ کی طرف سے بھی ایک بیان سامنے آیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے کاغذات نامزدگی کے فارم کے حوالے سے فیصلہ اور پھر سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملے کو زیر سماعت لانے اور حلف نامے کو شامل کرنے جیسے معاملات بہت اہم ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی میڈیا کے خلاف کریک ڈاﺅن کے حوالے سے رپورٹ بھی آئی ہے جس کی وجہ سے انتخابات کا صاف وشفاف انعقاد مشکوک ہو رہا ہے۔ الیکشن کمشن نے پہلے تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی عائد کی، بعد میں نگران حکومت کو اس کی اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے پولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کا وقت بڑھانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ دیگر جماعتیں بھی انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں کیوں ان جماعتوں سے اس معاملے پر مشاورت نہیں کی گئی۔ امیدواروں پر پارٹی تبدیل کرنے کے لیے دباو ڈالا جارہا ہے، وزیر دفاع کل ایوان کو آکر بتائیں، الیکشن کمشن اس حوالے سے بات کرے۔ الیکشن کمشن نے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں۔ پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس بلا کر الیکشن کمیشن سے تفصیلی جواب طلب کیا جائے۔ مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑ رہی ہے کہ انتخابات ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئے ہیں، الیکش کمشن اپنا کردار ادا کرنے ناکام نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کس طرح کہہ دیا کہ پرویز مشرف ملک میں واپس آکر الیکشن لڑ سکتا ہے جبکہ وہ آرٹیکل6کا مجرم ہے،جب وہ نہیں آیا تو سپریم کورٹ نے اپنا آرڈر واپس لے لیا۔ قصور کے کمانڈر نے ڈی آراو کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔ شیری رحمان نے کہا کہ لوگوں پر دباﺅ اور میڈیا بلیک آﺅٹ پر ہمیں تشویش ہے، ہماری قیادت کے خلاف سیاسی کیس بنایا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ ملاقات میں یہ معاملہ اٹھائیں گے، ہم ڈرنے والے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ میڈیا سنسرشپ پر تشویش ہے جو پورے انتخابی ماحول کو متاثر کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بھی میڈیا بلیک آﺅٹ تشویش ناک امر ہے۔ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے، سابق صدر آصف زرداری کے خلاف 2015 کا منی لانڈرنگ کا کیس اچانک کھول دیا گیا، بغیر تفتیش کے آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے، اس وقت ورکرز پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ ستارہ ایاز نے کہا کہ اس وقت اے این پی اور بلور خاندان پر کڑا وقت ہے، لاشوں کی سیاست کا ذکر نہیں کرنا چاہئے، الیکشن آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے چاہئیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کوکرپشن پر سزا ہوئی ہے،کوئی اداروں سے بالاتر نہیں ہے، پیپلز پارٹی کو بھی کرپشن کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو مشکوک نہ بنائیں، انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں اور سب کو سکیورٹی دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اداروں سے بالاتر نہیں ہے، سب کا احتساب ہونا چاہئے، ہم جیتے ہوئے ہیں اور انشااللہ جیتیں گے۔ اس ہاﺅس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے، یہاں قانون بنتا ہے، پالیسیوں پر بحث ہوتی ہے، اس ایوان کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دو پارٹیوں کا گٹھ جوڑ ہو گیا، ان کو نظر آ رہا ہے کہ اب پاکستان بدل چکا ہے،جب آپ سے پوچھا جائے کہ اثاثے کیسے بنائے تو جواب ہونا چاہئے۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ بلدیاتی اداروں کو معطل کرے،کیا اب وہ سینیٹ کو بھی معطل کریں گے؟ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم الیکشن کمشن سے پوچھیں یہ اختیار کس نے دیا۔ پنجاب میں جیپ اور سندھ میں گرینڈ الائنس والوں کو لایا جارہا ہے۔ سینیٹر اعظم موسی خیل نے کہا کہ سینیٹر رضا ربانی نے بالکل جامع بات کی،اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں من پسند اور لکیر کے فقیر لوگ آئیں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن کی بات کو قیامت کے دن بھی ثابت کرونگا، سیشن کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کریں یہ آپ کس کی بات کر رہے ہیں، لکیر کے فقیر لوگوں کو سینٹ میں نہیں آنا چاہئے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ ایوان بالا کا اجلاس ختم نہیں ہورہا، یہ جاری رہے گا۔ سینٹ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیاں دس سالہ تجارتی حجم کی تفصیلات ایوان بالا میں پیش کردی گئی ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان کے نکتہ¿ اعتراض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح ایوان بالا کے ارکان چاہیں گے اسی طرح ہوگا اور ایوان کا اجلاس جاری رکھا جائے گا۔ قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سینیٹ کا اس وقت واحد منتخب ادارے کے طور پر کردار بہت اہم ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اجلاس جاری رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و انچارج کابینہ ڈویژن سید علی ظفر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی وفاق کا حصہ ہے، تمام صوبوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو وفاق کے تحت رکھنے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ مختلف صوبوں میں ادویات کے معیارات مختلف ہونے سے مسائل پیدا ہوں گے۔ انچارج وزیر برائے ہوا بازی ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے بتایا کہ سی ڈی ڈبلیو پی نے مانسہرہ میں ایئر پورٹ کے لئے اراضی کے حصول کیلئے منظوری دی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سید علی ظفر نے نکتہ اعتراض کے جواب میں کہا کہ گیس کے نرخ پہلے ہی کم ہیں، اس لئے مزید سبسڈی دینا ممکن نہیں ہے، اگر سینیٹ کی طرف سے منظور کردہ قرارداد کے مطابق بلوچستان سمیت ملک میں گیس کے سلیب ریٹس کم کئے جائیں تو اس سے کمپنی کو مزید نقصان ہوگا۔ ایک نکتہ اعتراض کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ارسا نے بلوچستان کے لئے بھی پانی کا حصہ مقرر کیا ہے، بدقسمتی سے بلوچستان کے موقف کے مطابق اسے پانی نہیں مل رہا۔ سینٹ میں انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد کی مسلسل اشاعت سے متعلق تحریک التواءبحث کےلئے منظور کرلی گئی جبکہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے پی ٹی اے کو متعلقہ سائٹس بلاک کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ سینٹ میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2018ءبھی پیش کردیا گیا۔
سینٹ