اسلام آباد (آن لائن) پاکستان نے خفیہ اداروں کے سربراہوں کی ایک ایسی کانفرنس کی میزبانی کی جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں،جس میں روس،چین اور ایران کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں نے شرکت کی اور ان کی توجہ کا مرکز خاص طور پر شورش زدہ ملک افغانستان میں داعش کے قدم جمانے کی کوششیں تھیں۔امر یکی ٹی وی وا ئس آ ف امر یکہ نے ذرا ئع کا حوالہ دیتے ہو ئے اپنی رپورٹ میں کانفرنس کے انعقاد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ شرکا ءنے مشرقی افغانستان میں سرگرم جنگجوو¿ں کی سرگرمیاں روکنے سے متعلق مشترکہ اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔افغانستان میں موجود داعش کے عسکریت پسندوں کی وفاداریاں مشرق وسطی ٰ کے دہشتگرد گروپ سے ہیں اور افغانستان کےساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے یہ چاروں ملک اپنے پڑوس میں داعش کے اجتماع کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔اجلاس کا ایک اور غیر معمولی پہلو یہ کہ جو ملک داعش کی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وہ اس کانفرنس میں شامل نہیں تھا،یعنی افغانستان۔اس ضمن میں ترجمان ماسکو فارن انٹیلی جینس سروس سرگئی آوانو نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں یہ اجلاس افغانستان میں داعش کی گروہ بندی سے متعلق تھا،کانفرنس کے شرکا نے داعش کے دہشتگردوں کو شام اور عراق سے افغانستان میں جانے سے روکنے کے لیے تعاون پر مبنی اقدام کی اہمیت پر اتفاق کیا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے،روس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سرگئی نارشکن نے اسلام آباد میں ہونےوالے اجلاس میں چین اور ایران کے اپنے ہم منصبوں کےساتھ شرکت کی۔ان سب نے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کیلئے علاقائی طاقتوں کی جانب سے زیادہ موثر شمولیت کی اہمیت پر زور دیا۔
خفیہ ایجنسیاں