لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

Jul 13, 2019

پروفیسر فہمیدہ کوثر

درد کے رنگ بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ نیلے ، پیلے، اودے کالے اور سب سے گہرا رنگ تو ذات سے آشنائی کا دکھ ہے۔ جولائی کے مہینے میں اس دنیا میں آنے والا شخص ساغر صدیقی ان رنگوں کو اوڑھنا بچھونا بناتا تھا۔ وہ ایک درویش منش انسان تھا۔ جو دل شکستہ بھی تھا اور پرسوز بھی کہتے ہیں کہ سوز کی دنیا ساز سے بنتی ہے۔ سانس کا ڈوبتا ابھرتا ساز جب غم، حزن اور ظاہری و باطنی کشمکش کی دُھن پر راگ الاپتا ہے تو درد کا راگ آنکھ میں آنسو بن کر اتر آتا ہے۔ تب ایک دُکھی دل یا تو بدمست ہو جاتا ہے یا سڑکوں، چوراہوں اور درباروں سے دوستی کر کے اسے اپنا مسکن بنا لیتا ہے۔ ساغر صدیقی کا مسکن یہی سڑک، چوراہے اور دربار تھے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا یسا کیا دُکھ تھا جو کہ ساغر صدیقی کو شاعری پر آمادہ کرتا اور پھر مجبور کرتا کہ اسے داد وصول کرنے کے بعد جلا ڈالے۔ کتنے شعر آتشِ نذر ہوئے ۔ کتنے دُکھ راکھ میں تبدیل ہو گئے۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
اُنہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھائو بڑا اندھیرا ہے
کہا جاتا ہے کہ ا یوب خان جب بھارت دورے پر گئے تو وہاں کسی شاعر نے غزل پڑھی ایوب خان نے پوچھا کہ اس غزل کا تخلیق کار کون ہے۔ اُن کو بتایا گیا کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہے ا ور اس کا نام ساغر صدیقی ہے۔ ایوب خان متاثر ہوئے کہ انکے ملک میں بھی اس قدر ہنر موجود ہے۔ ایوب خان جب پاکستان واپس آئے تو ساغر صدیقی کو بلانے کے لیے ایک وفد بھیجا۔ ساغر صدیقی درویشوں اور ملنگوں کی صحبت میں بیٹھا ہوا تھا۔ بولا، جائو جا کر کہہ دو کہ ساغر صدیقی کسی سے نہیں ملتا۔ اسکی کسی سے نہیں بنتی۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ایوب خان جب لاہور آئے اور پھر ساغر صدیقی سے ملنے کا تقاضہ کیا تو ساغر صدیقی نے مصافحہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا
جس دور میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس دور کے سلطان سے کوئی بُھول ہوتی ہے
اُس شاعر نے معاشرے اور ماحول سے کہا کچھ مستعار لیا کہ اس کا وجود ہی سراپا درد بن گیا۔ ایسا آبلہ جو کہ بے کسی، بے حسی اور متضاد رویوں کے سامنے بار بار پھٹتا ہے اور کرب کا احساس دلاتا ہے۔ ساغر صدیقی کہتے ہیں کہ میں شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں اور شعر پیتا ہوں، ان شعروں کی صورت میں نجانے کتنے دُکھ ساغر صدیقی نے روح میں اتارے اور یہ دکھ جب شاعری کی صورت میں منظرِ عام پر آیا تو کتنے سوختہ اور دلگداز دلوں کو جھنجھوڑتا چلا گیا ۔…؎
میں نے پلکوں سے دریا پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی دنیا کے مصائب سے گھبرا گیا رویوں سے گھبرا گیا۔ بے حسی کے زہر نے جب اُن کے رگ و پے میں سرایت کیا تو انہوں نے ا یک کُتے سے دوستی کر لی جو مرتے دم تک اُن کے ساتھ رہا۔ جب دنیا ساغر صدیقی کو بھول گئی تو انہوں نے بھی دنیا کو تیاگ دیا۔ درویشی اختیار کی۔ سڑکوں اور درباروں کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ لیکن اُن کی نمایاں خصوصیت ان کا وہ جاندار کلام ہے جس نے انہیں زندہ جاوید کر دیا۔ کئی لوگوں نے اُن کا کلام اپنے نام سے بھی چھپوایا اور نام بھی حاصل کیا لیکن ساغر صدیقی کو اپنے کام اور فن کا اندازہ تھا لہٰذا انہوں نے برملا لکھا
میری نگاہِ شوق سے گُل ہو گا د یوتا
میں عشق کی دُعا ہوں مجھے یاد کیجئے
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پانی میں عکس چاند کا د یکھا تو رو دئیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ د یکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو ہنس پڑے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دئیے

مزیدخبریں