کشمیر کے رہنے والوں کی انمٹ داستان ہے۔ جنت بینظیر کو اپنے پرائے سب نے نوچا۔ انسان کے سانس لینے پر کمروں کھڑکیوں ، دروازوں، چولہے الغرض ہر چیز پر ٹیکس لیا جاتا تھا۔ الٹی اور سیدھی کھالیں اتاری جاتی تھیں۔ 13 جولائی 1931ء کا دن بھی کشمیری قوم کے لئے پیغام لے کر آیا۔ امام حسین ؑ کی شاندار قربانی کی یاد تازہ کر دی۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے سارا منظر بدل دیا۔ محکوم و مجبور قوم نے انگڑائی لی۔ سینٹرل جیل ، سرینگر میں گرفتار کشمیریوں کی سماعت تھی اور باہر کشمیری سراپا احتجاج تھے۔ اذان کا وقت ہو گیا۔ ایک کشمیری نے اذان دینا شروع کی۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے محافظوں نے فائرنگ کی۔ یکے بعد دیگرے 22نوجوانوں نے اذان مکمل کی اور شہید ہوتے رہے۔ اس دور کے مورخین کے مطابق سب نے سینوں پر گولیاں کھائیں۔ اس ایمان فیروز واقعہ نے پوری ریاست کشمیر میں آگ لگا دی۔ اور ایک نئی بیداری پیدا ہوئی۔ اس کے فوراً بعد آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے پہلے صدر شیخ محمد عبداللہ اور رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ کیونکہ اس سے پہلے کشمیری مسلمان ملازمت ، تعلیم، تجارت، کاشتکاری ہرلحاظ سے پسماندہ تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب بھارت کے مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1931ء کو ہی شملہ کے مقام پر آل انڈیا کشمیر کانفرنس طلب کی گئی۔ جس کی صدارت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کی۔ نواب آف ڈھاکہ سلیم اللہ خان ، مولانا ابواکلام آزاد ، سرذوالفقار علی خان، مولانا شوکت علی خان، مرزا بشیر الدین ، اے آر ساغر سمیت درجنوں زعما نے شرکت کی۔ علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ 14 اگست 1931ء کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی منایا گیا۔ 13 جولائی 1931ء شہداء کی قربانیوں سے ڈوگرہ مہاراجہ کا اقتدار زوال پذیر ہوا۔ یہ دن کشمیر و پاکستان سمیت پوری دنیا میں عقیدت و احترام اور تجدید عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے آج بھی حالات یوم شہداء سے کم نہ ہیں۔ 7 لاکھ فوج کا موجود ہونا ۔ لاء اینڈ آرڈرمہلک ہتھیاروں کا استعمال جس سے ہزاروں لوگوں کی بینائی ختم ہو چکی ہے۔ حریت قیادت پابند سلاسل ہے۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو جمعہ کے موقع پر خطبہ تک دینے کی اجازت نہ ہے۔ وادی لہو لہوہے۔ ہر گھر سے شہید ہے۔ جہاں اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے ایک ہی رپورٹ دے رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی انتہاء ہے۔ ان اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں آنے کی اجازت نہ ہے۔ بھارت کے اندر سے مودی سرکار کو کشمیر کا پر امن حل نکالنے کے لئے زور دیا جا رہا ہے اور فوجی طاقت کے استعمال کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کشمیریوں نے اپنی قرار داد کے ذریعے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا اور جدوجہد کے ذریعے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد کرایا۔ اس جدوجہد کے ہیرو مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان تھے۔ جو کہ اس وقت نوجوان تھے۔ 10جولائی کو ان کی چوتھی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ اس بار بھی آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے ان کے مزار غازی آباد ، دیر کوٹ ، ضلع باغ میں اہتمام کیا ۔ جماعت کے قائد سردار عتیق احمد خان ، مسلم کانفرنس کے صدر محمد شفیق جرال، سپیکر کشمیر اسمبلی شاہ غلام قادر ، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر، جماعت اسلامی کے سابق امیر اور پبلک اکائونٹ کمیٹی کے چیئرمین عبدالرشید ترابی‘ جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار حسن خالد ابراہیم ، ممبران اسمبلی ملک محمد نواز، سردار صغیر احمد چغتائی، پیر علی رضا بخاری، ممبر کشمیر کونسل سردار مختار احمد عباسی، پیر سید غلام یٰسین بخاری، پیر سرہندی علماء مشائخ اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے کارکنوں اور ان کے ہزاروں چاہنے والوں کی نے شرکت کی۔ حمد و ثناء اور درود و سلام تک پروگرام محدود رکھا گیا۔ ان کے لخت جگر اور سیاسی جانشین سردار عتیق احمد خان نے مہمانوں اور کارکنوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے حکومت آزاد کشمیر کا سرکاری سطح پر برسی کی تقریب منعقد کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر میجر نصر اللہ ، مسلم کانفرنس دھیر کوٹ کے صدر سردار انقلاب احمد خان ، سردار عتیق احمد کے فرزندان، سردار عثمان علی اور سردار عفان علی نے خوش آمدید کہا۔ کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام مظفر آباد، کشمیر سنٹرل لاہور راولپنڈی اور میر پور ، فیصل آباد جہاں کشمیریوں کی بڑی تعداد ہے۔ وہاں بڑی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ مجاہد اول پبلک پراپرٹی تھے ۔ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔
یوم شہدائے کشمیر اور سردار عبدالقیوم کی برسی
Jul 13, 2019