یہ خوشی کیا ہے؟ نون لیگی لوگ اپنے لیڈر سیاستدان حمزہ شہباز کی گرفتاری پر بہت خوش ہوئے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حمزہ شہباز کو سوچنا چاہئے۔ اُن کی حیثیت کیا ہے۔ صرف یہ کہ وہ شہباز شریف کے بیٹے ہیں۔ میرے خیال میں کچھ اور بھی ہے۔ ذاتی حیثیت بہت چیز ہوتی ہے۔
جب نون لیگ کے اقتدار کے دن تھے تو بھی حمزہ شہباز کے پاس ایک بہت خوبصورت دفتر تھا جبکہ ان کے پاس کوئی عہدہ نہ تھا۔ میں ان سے ملا تھا عزیزم عمیر خالد میرے ساتھ تھا۔ ہم اُم نصرت کے دفتر سے ان کے دفتر میں گئے تھے۔ مجھے اچھا لگا کہ مائرہ عمیر کے دفتر اور حمزہ شہباز کے دفتر میں کوئی فرق نہ تھا۔ صرف پروٹوکول اور سکیورٹی کا فرق تھا۔ اُم نصرت میں معذور اور تھیلسیمیا کے مریض غریب بچوں کو تازہ خون دیا جا رہا ہے۔ ہماری ساری قوم کے بچوں کو تازہ خون کی ضرورت ہے۔ کاش حمزہ شہباز اس تلخ حقیقت پر غور کرتے۔ بہرحال مجھے حمزہ شہباز کی گرفتاری سے خوشی نہیں ہوئی۔ یہ خوشی ضرور ہو ئی کہ وہ اب لیڈر بن گئے ہیں۔ ہمارے یہاں ضروری ہے کہ لیڈر گرفتار ضرور ہوتا ہے ۔ میرے قبیلے کے قائد مولانا عبدالستار خان نیازی جیل کو اپنا سسرال کہا کرتے تھے جبکہ وہ غیر شادی شدہ تھے۔ مریم نواز حمزہ شہباز سے پہلے گرفتار ہوئی ہیں۔ اس صورتحال کے لیے بھی حمزہ سوچیں گے۔وہ مریم نواز کے لیے اسی طرح محسوس کریں جو ان کے والد شہباز شریف بڑے بھائی نواز شریف کے لیے محسوس کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
برادرم حامد میر کے پروگرام میں ممبر اسمبلی سسی پلیجو نے اچھی گفتگو کی۔ حامد میر سلیقے سے پروگرام پیش کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو بلاتا ہے جنہیں نہیں بلایا جاتا جبکہ ان لوگوں کے بارے میں لوگ صرف خبریں ہی پڑھتے ہیں۔ اُن کے ساتھ شفقت محمود بیٹھے تھے۔ وہ بات ایسے کرتے ہیں جیسے شفقت کر رہے ہوں۔ انہیں بزرگ بننے کا بڑا شوق ہے۔
٭٭٭٭
مانچسٹر میں بھارت کی نیوزی لینڈ سے شکست پر مسلمانوں نے اور پاکستانیوں نے جشن منایا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ پاکستانیوں نے کرکٹ میچ میں بھارت کی حمایت کی ہو۔ بھارت نے بھی کبھی ایسا کیا ہو گا۔ عمران خان نے بھارت میں بھارت کو شکست دی۔ سُنا ہے وہاں بھی کچھ بھارتیوں نے پاکستان کے لیے اس خوشی میں شرکت کی تھی۔ ہمسایہ ملکوں میں ہمسایوں جیسے روابط ہونا چاہئیں۔ مسائل بھی ہوتے ہیں۔ تنازعے بھی ہوتے ہیں اور تعلق بھی رہتا۔ مسائل وہیں ہوتے ہیں جہاں کوئی تعلق ہوتا۔ اس کے بغیر تو بات ہی نہیں بنتی۔
میں نے کشمیر کے حوالے سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ میں بھارت گیا تھا۔ کشمیر کے بارڈر تک چلا گیا۔ مگر ویزا نہ ملا۔ کہنے لگے تم لکھتے رہتے ہو بھارت کے خلاف بھی لکھتے ہو۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی کسی بھارتی رائٹر نے ہمارے خلاف بھی لکھا۔ یہ بھی تعلق کی ایک صورت ہے ۔ مگر بہت بدصورت بات یہ کہ تم ہمیں کشمیر نہیں جانے دیتے۔ ہم وہاں نہ جا کے بھی لکھتے ہیں اور لکھتے رہیں گے۔
بہرحال ہمیں بھارت کی نیوزی لینڈ سے کرکٹ میچ میں ہارنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے مگر اس پر بھارت غور کرے کہ ہم دنیا کے کسی ملک سے ہار جائیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھارت سے نہ ہاریں۔ بھارت ہم سے ہارے گا تو ہم خوش ہونگے۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے۔ ہم ہمسائیگی کے حقوق سے باخبر ہیں۔ بھارت بھی کچھ شرم کرے۔
٭٭٭٭
اسفند یار ولی اپنی بستی چارسدہ میں رہتا ہے۔ اس کا والد سیاستدان عبدالولی خان وہیں رہتا تھا۔ عمران خان کے لیے دھمکی دی ہے کہ ہم اسے میانوالی پہنچا دیں گے۔ یہ تو میانوالی کے لوگوں کی بھی تمنا ہے۔ انہوں نے ہی ووٹ دے کر انہیںاقتدار میں پہنچایا ہے۔
مگر وہ میانوالی میں نہیں رہتے۔ جب وہ اقتدار میں نہ تھے بلکہ سیاست میں نہ تھے تو بھی میانوالی میں نہ رہتے تھے۔ انکے والد بھی میانوالی میں نہیں رہتے تھے۔ ان کے بھائی ظفراللہ خان شیرمان خیل میانوالی میں رہتے تھے۔ لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہاں عمران کے لیے بھی بہت محبت ہے۔