لاہور(ایف ایچ شہزاد سے) مروجہ قانون کے مطابق عدالتی فیصلے سے مجرم قرار دیئے گئے میاں نواز شریف کی رہائی کسی ایڈمنسٹریٹو حکم سے نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور مریم نواز کی طرف سے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اور جج کو کام سے روکے جانے کے حکم کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی رہائی کا مطالبہ غیر قانونی اور ناقابل عمل ہے۔ اپیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے احتساب عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دینے پر ہی میاں نواز شریف کو رہائی مل سکتی ہے۔ جہاں تک مبینہ دیڈیو کا تعلق ہے تو قانون کی منشا کے مطابق مسلم لیگ (ن) مبینہ ویڈیو میں بیان کی گئی باتوں کو درست ثابت کر دیں تو ایپلٹ کورٹ ریفرنس کے ری ٹرائل کا حکم دے سکتی ہے۔ اپنے دعووئوں کے ثبوت نہ دینے کی صورت میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ کے دیگر راہنمائوں پر مزید مقدمے بن سکتے ہیں۔ جج ارشد ملک کی طرف سے لگائے گئے الزامات پراسلام آباد ہائی کورٹ میاں نواز شریف،حسین نواز ،مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت اور( ن) لیگ دور کی وزارت قانون کے اعلی عہدیداروں سے بھی بیان حلفی طلب کر سکتی ہیں۔سماعت کے دوران کسی جج پر دبائو ڈالنے کی سزا دس سال تک ہے۔ بیان حلفی کے مطابق نواز شریف کے نمائندوں نے بتایا کہ ان کا تبادلہ اعلی شخصیت کی سفارش پر خود کروایا۔اس الزام کے بارے میں بھی تحقیقات کروانا ہوں گی کہ جج کا تبادلہ کسی سازش کے تحت تو نہیں کروایا گیا۔سپریم کورٹ میں مبینہ ویڈیو کے بارے میں دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی ہے۔عدالت عظمی میں سماعت کے بعد سمت کا تعین ضرور ہو جائے گا کہ عدلیہ اس معاملے کو کیسے نمٹانا چاہتی ہے۔
نواز شریف کی رہائی کسی انتظامی حکم نہیں، عدالت سے سزا کالعدم ہونے پر ممکن ہے
Jul 13, 2019