اسلام آباد (محمدنواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) حکومت نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی پیش کی گئی تحریک کو ’’غیر موثر‘‘ بنانے کے لئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی ہے اس کے پاس26ووٹ ہیں جب کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے کم از کم 52ووٹوں کی ضرورت ہے جب کہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے 44 ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے جب کہ اس کے پاس67ووٹ ہیں اپوزیشن کے 5، 6ارکان جن میں سینیٹر چوہدری تنویر خان ، سینیٹر طلحہ محمود ، سینیٹر عائشہ رضا ، سینیٹر ساجد میر اور سینیٹر عبدالکریم بیرون ملک ہیں وہ سینیٹ کا اجلاس طلب کئے جانے کے بعد کسی وقت بھی پاکستان آسکتے ہیں ۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا محمد ظفر الحق نے پیر15جولائی کو اپوزیشن ارکان سینیٹ کا غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کر لیا ہے اجلاس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اپوزیشن سینیٹرز کے اجلاس میں شرکت کریں گے میاں شہباز شریف اور راجا محمد ظفر الحق دونوں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے پیر کو اپوزیشن ارکان کی حاضری کو یقینی بنایا جائے گا۔ جمعہ کو میاں شہباز شریف کے اسلام آباد نہ آنے کی وجہ سے اپوزیشن سینیٹرز کا اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا گیا ۔ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق ریکوزیشن پر طلب کردہ اجلاس چیئرمین سینیٹ کو 14روز کے اندر طلب کرنا آئینی تقاضا ہے جب کہ تحریک عدم اعتماد پر سینیٹ کا اجلاس 7سے14روز کے اندر طلب کرنا لازمی امر ہے حکومت چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ’’ٹیبل‘‘ ہونے پر الجھائو پیدا کرنے کے لئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی ہے جس روز چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے گی حکومت اجلاس کی صدارت کا تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کرے گی اور اس بات پر اصرار کرے گی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی ہے لہذا وہ صدارت نہیں کر سکتے اپوزیشن اس بات پر اصرار کرے گی کہ ڈپٹی چیئرمین یا کوئی سینئر سینیٹر صدارت کرے آئینی ماہرین کے مطابق حکومت چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکے گی ۔