قائد اعظم محمد علی جناحؒ تحریک پاکستان کے سلسلے میں شملہ میں موجودتھے ۔ایک روز وہ سائیکل رکشہ پر اپنی رہائش گاہ کیطرف جارہے تھے کہ اناڑی رکشہ ڈرائیور توازن برقرار نہ رکھ سکا اور رکشہ بے قابو ہوکر ڈھلوان کی طرف تیزی سے سرکنے لگا۔قریب تھا کہ رکشہ کسی حادثے کا شکار ہوجا تا کہ کچھ مسلمان نوجوانوں نے صورت حال بھانپ لی اور وہ بجلی کی تیزی سے لپکے اور رکشے پر قابوپالیا۔یوں قائد اعظم محفوظ ہوگئے اور بعدازاں انگریز اور ہندو کو بیک وقت شکست دے کر پاکستان حاصل کرلیا۔آج ایک اناڑی ڈرائیور کے ہاتھوں پاکستان کی گاڑی بے قابو ہوگئی ہے اور خاک بدہن کسی حادثے کاشکار ہوسکتی ہے ۔اب بھی باہمت پاکستانیوں کو صورتحال بھانپ لینی چاہیے ۔وہ لپک کر آگے بڑھیں اور پاکستان کی گاڑی کو کھائی میںگرنے سے بچالیں ۔پاکستان کو کئی بار حادثات کا شکار ہونا پڑا ہے ۔لیکن پاکستانیوں نے ہر حادثے سے سبق سیکھا اور آگے بڑھے ہیں۔جب کشمیر کی جنگ میں جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیاتو یہ پہلا حادثہ تھا ۔لیکن پاکستانیوں نے اپنے زور بازو پربھارت سے آدھا کشمیر چھڑوا لیا۔پھر اپنی دفاعی قوت کو بڑھانے کیلئے اپنی آمدن سے بڑا حصہ نکالنا شروع کیا ۔1965 ء کی جنگ ہوئی ۔ بہادرپاکستانیوں نے فوج کے شانہ بشانہ لڑکر بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔مارشل لاء طویل ہوا اورحادثہ ہوگیا ۔پاکستان دولخت ہوگیا۔فوج قید ہوگئی ۔پاکستانیوں نے سوگ منایا لیکن ہمت نہیں ہاری۔پیٹ پر پتھر باندھے اور ایٹمی طاقت کے طور پرخود کو منوا لیا ۔پھر حادثہ ہوگیا اور مارشل لاء لگ گیا ۔لیکن پاکستانیوں نے موقع ملتے ہی دہشت گردی کو شکست دے دی ۔ملک ترقی اور تعمیر کے سفر پر گامزن ہوگیا۔ملک میں بجلی کے کارخانے لگے ۔چودہ موٹر ویز بنیں۔سی پیک منصوبے تیزی سے تکمیل پانے لگے ۔پھر حادثہ ہوگیا ۔اس سے پہلے کہ پاک چین کوریڈور مکمل ہوکر قومی آمدن کا ذریعہ بنتا ،اس پر کام رک گیا اور آج تک رکا ہوا ہے ۔قیام پاکستان کے بعد ہماراتعارف ایک نیا ملک حاصل کرنے والے عظیم پاکستانی قوم ،محنتی اور ایماندار لوگ،بڑے بڑے سانحات سے نپٹنے کی صلاحیت رکھنے والے عوام،عالمی برادری میں سر اٹھا کر چلنے والے ملک کے طور پر سامنے آیا لیکن مشرف دور میں ہمارے قومی کردار کی تعریف بدل دی گئی ۔ہمیںانتہاپسند اور دہشگرد کے طور پر پینٹ کردیا گیا ۔آج ہمارے منفی تعارف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔اب ہم ایک کرپٹ قوم،قرض پر پلنے والا ملک،جعل ساز لوگ ،تباہ حال اداروں اورکمزور دفاع والی مملکت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ہمارا یہ تعارف کسی غیر نے نہیں بلکہ خود اس ملک کے بااختیار لوگوں نے پیش کیا ہے ۔ہر ملک میں جاکر ہمارے وزیر اعظم نے دنیا کو بتایا ہے کہ ہم کرپٹ ہیں ،ہم ٹیکس چور ہیں ۔ہمیں کوئی قرض دینے کیلئے تیار نہیں ،ہم غریب ہیں اورپاکستان پچھلے ستر سال سے غلط راستے پر چل رہا ہے ۔اگر اب پاکستان ٹھیک نہ ہوا تو یہ ملک چل نہیں سکے گا ۔دنیا نے ہماری بات پر یقین کرلیا ہے ۔آج ہم دنیا بھر میں اچھوت ہوگئے ہیں ۔پاکستانی پائیلٹ دنیا بھر کی ائر لائینوں میں برس ہا برس سے خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔ہمارے پائیلٹوں کو غیرملکی ائیر لائنز ترجیح دیتی تھیں لیکن ہمارے وزیر
کی ایک تقریر نے ایتھوپیا جیسے ملک کو بھی ہمارے پائیلٹس پر پابندی لگانے کے راہ دکھا دی ۔پاکستان کو بدنام کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کئے جارہے ہیں ۔اور یہ سب کچھ سیاسی مخالفت کی بنیاد پرکیاجارہا ہے ۔ ناعاقبت اندیش حکمرانوں کو احساس ہی نہیں کہ دنیا اپنی کمزوریاں خاموشی سے درست کرتی رہتی ہے چوراہے میں ڈھول نہیں پیٹتی ۔لیکن اس حکمران جماعت کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ وہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں .ملک کی گاڑی تیزی سے ڈھلوان کی طرف سرک رہا ہے اور کھائی میں گرنے کے قریب ہے ۔لیکن عظیم پاکستانی،پرانے اوراصلی پاکستانی ۔وہ پاکستانی جنہوں نے اس ملک کیساتھ زندگی کے ستر ،اسّی برس گزارے ہیں ،جنہوںنے اس پاکستان کے طفیل اپنی زندگی کوبنایا اور اپنے اردگرد لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لیکر آئے، انہیں ایکبار پھر ہمت دکھانا ہوگی۔ یہ لوگ اپنے سامنے اپنے پاکستان کو کھائی میں گرتے کیسے دیکھ سکتے ہیں ۔انہیں آگے بڑھ کر عظیم پاکستان کو اناڑی اورضدی گروہ سے بچانا ہوگا۔پاکستان کے اصلی تعارف کوبہ تکرار دھرانا ہوگا۔اپنی پختہ دانش سے اس کوتاہ دانش جماعت کو احساس دلانا ہوگا کہ یہ آپ کے ڈیڑھ کروڑناپختہ ذہن ووٹروں کا ملک نہیں ،بائیس کروڑلوگوں کا گھر بھی ہے ۔کوئی گھر بدنام ہوجائے تو اس کے بچوں کے رشتے نہیں آتے ۔اور جو لوگ اس گھر کو ہر روز بدنام کریں ان کو گھر بدر کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ان کی زبان کا محاسبہ لازم ہوجاتا ہے ۔
اللہ کی مدد سے تبدیلی کے نام پر پیش آنے والا یہ حادثہ بھی قوم سہہ جائے گی ۔بہت بڑا سبق سیکھ لیا ہے ۔ہم ایکبار پھر ابھریں گے ۔کہ،
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھرڈوبے ادھر نکلے