پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے اور اسے نقصان پہنچانے میں کبھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ ان دنوں اُسے بد ترین حالات کا سامنا ہے ، مگر اس کے باوجود اس کی پاکستان کیخلاف جارحیت رعونت اور فرعونیت میں کمی نہیں آئی۔اس نے لائن آف کنٹرول پر پاکستان کیخلاف جنگ مسلط کررکھی ہے۔پاکستان کے اندر بھی اس کے ’’سلیپنگ سیلز‘‘ ہیں جنہیںاس نے ایک بار پھر متحرک کیا ہے ۔جس کا ایک بڑا ثبوت گزشتہ دنوں سٹاک ایکسچینج کراچی پر دہشتگردوں کا حملہ ہے۔ یہ تخریب کاری کاایک بڑا منصوبہ تھا جسے موقع پر موجود گارڈز،پولیس اور فوری ایکشن میں آتے ہوئے رینجرز نے ناکام بنا کر دشمن کو اپنے الرٹ ہونے کا پیغام دیا۔ان حالات کے پیش نظر پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ایسے حالات میں انصاف کی اہمیت نہ صرف برقرار رہتی بلکہ دو چند ہوجاتی ہے ۔عدل و انصاف کی اہمیت کے حوالے سے چرچل نے بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ ’’ اگر عدالتوں میں انصاف ہورہا ہے تو برطانیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی‘‘۔ہمارے لئے خلیفہ راشد حضرت علیؓ کا قول بھی چشم کشا ہے،فرمایا ’’کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظلم کا نہیں‘‘۔مزید براںا نصاف کی اہمیت کو امام غزالی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دنیا سے اپنی آخری کتاب قرآن مجید واپس لے لے اورانسانوں کیلئے صرف ایک لفظ رہنے دے ’’اعدلوا‘‘ یعنی عدل کرو تو بھی معاشرہ زندہ و سلامت رہ سکتا ہے۔آج ہماری عدلیہ بلاشبہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داری کماحقہٗ ادا کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔ملکی استحکا م ، حکومت کی کامیابی ، جمہوریت ،گڈگورننس ، معیشت کا استحکام ، عوام کی خوش حالی اور امن و امان کی قابل رشک صورتحال اس پر منحصر ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو ، قوانین کا صحیح معنوںمیں یعنی بِلا رو رعایت اور بِلا امتیاز نفاذ ہو ۔ ان سب امور کو یقینی بناناعدلیہ اورانتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔کرپشن نے ملک کی چولیں ہِلا دی ہیں۔بعض محکموں اور با الخصوص پبلک یوٹیلیٹی سروسز کو لے لیں ،عام تاثر یہ ہے کہ رشوت دیئے یا عوامی زبان میں فائل کو ’’ پہیئے‘‘ لگائے بغیر کام نہیں ہو تا۔یہ طے ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کیئے بِنا کوئی غیر ملکی سرمایہ کار ادھر کا رُخ نہیں کرے گا۔بیرونی سرمایہ نہ آئے تو ایک ایسا ملک کیسے ترقی کر سکے گا، جس کے پاس تیل کے کنوئیںہیں نہ سونے کی کانیں۔ کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے عدلیہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اربوں روپے کے غبن کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے نام لئے جارہے ہیں مگر متعلقہ ادارے برسوں کی دوڑ دھوپ کے باوجود کسی سے کچھ بھی برآمد نہیںکراپائے،اگرچہ چیئرمین نیب کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک ساڑھے چار کھرب کے لگ بھگ برآمد کراکر قومی خزانے میں جمع کرواچُکے ہیںاور 69فیصد مقدمات میں سزا ہوئی۔بِلاشبہ اتنی رقم کا قومی خزانے میں واپس آنا خوش آئندہے لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ اربوںکھربوں باہر چلے گئے ان کا بھی تو کچھ کیجئے ! نیب کے قیام کا جواز بھی اسی سوا ل کے تسلی بخش جواب پر منحصر ہے۔ تاخیر سے انصاف کو ناانصافی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔"Justice delayed is justice denied" ممکنہ حد تک کم وقت میںعدل کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی سے ہی عدل وانصاف پر مشتمل مثالی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ہمارے ہاں فیصلوں میں تاخیر کا اہم سبب نظام عدل کے اندر مروجہ طریقِ کار ہے۔جس میں اصلاح کے بغیر مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ عدالتوں،ججوں اور سٹاف کی تعداد کم ہونے کے علاوہ کئی اور بھی مسائل ہیں۔ کرپشن نے دیمک کی طرح ملکی وسائل کو چاٹا، ہر طرف عسرت،غربت، بے بسی و بے چارگی اسی عفریت کی وجہ سے ہے۔کرپشن کے خلاف نیب اور فوری احتساب کیلئے نیب کورٹس قائم کی گئیں۔جنہیں ایک ماہ میں فیصلے سنانے کا پابند کیا گیا۔ان کو بھی مسائل کا سامنا رہا ،جس کے باعث مقدمات میں تاخیر ہونا ہی تھی مگر یہ دوچار ماہ یا زیادہ سے زیادہ سال سوا سال کی ہوسکتی ہے۔
دوروز قبل ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا’’ نیب کے 1226 ریفرنسز زیر التواء ہیں، نیب ریفرنسز کا فیصلہ تو تیس دن میں ہونا چاہیے۔ لگتا ہے 1226 ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی۔ نیب کا ادارہ نہیں چل رہا۔‘‘ سماعت کے بعد کرپشن کے مقدمات جلد نمٹانے سے متعلق جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے انقلابی فیصلہ دیا جس سے یقینا کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کا گلاجلد ناپا جا سکے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ 20سال قبل کے کئی کیس بھی ابھی تک فیصلوں کے منتظر ہیں۔(ان میں بڑے نام کے لوگوں کے میگا کرپشن کیسز بھی ہیں)۔چیف جسٹس نے ہدائت کی کہ ملک میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کی جائیں اور سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایت لے کر انہیں قائم کریں،اور ان میں ججز کی تعیناتی بھی کی جائے۔ عدالت نے کرپشن کے مقدمات اور زیر التواء ریفرنسز کا تین ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی کی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل اور سیکرٹری قانون کو طلب کرلیا۔ عدالت نے چیئرمین نیب سے زیر التواء ریفرنسز کو جلد نمٹانے سے متعلق تجاویز بھی طلب کیں۔ سپریم کورٹ نے ملک کی پانچ مختلف احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے میں ججز تعینات کرنے کا بھی حکم دیا۔اتنی تعداد میں عدالتیں بنیں گی تو دیکھتے ہی دیکھتے مقدمات کم اور کرپشن کا ملبہ سمیٹا جانے لگے گا۔آج احتساب عدالتوں کی تعداد پچیس ہے مگر ان میں سے بھی پانچ میں جج نہیں ہیں۔وزیراعظم نے چند ماہ قبل ان ججوں کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا مگر ہنوز اعلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایجنڈا ہی کرپشن کاخاتمہ اور کڑا احتساب ہے۔مطلوبہ تعداد میں عدالتوں کے اضافے سے ان کے ایجنڈے کی تکمیل میںبڑی مدد ملے گی۔
حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات اور آبزرویشنز کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ لینا اور ان پر من وعن عمل کرنا چاہئے۔ پاکستان میں پاک فوج کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عزم ظاہر کرتے رہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ایسے ہی عزم و ارادے کا بارہا اعادہ کر چکے ہیں۔
پاکستان ،درپیش مسائل ، مزید احتساب عدالتیں
Jul 13, 2020