ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہآیا صوفیہ سے متعلق حتمی فیصلے کا حق صرف ترک حکومت کو حاصل ہے۔ باقی ممالک کا کام صرف اس فیصلے کا احترام کرنا ہے۔ ترک نشریاتی ادارے کے مطابق جریدہ کرائیٹیریا کے لئے انٹرویو میں صدر اردوان نے کہا ہے کہ آیا صوفیہ وہ جگہ ہے کہ جہاں فتح استنبول کے بعد فاتح سلطان مہمت خان نے پہلی نماز جمعہ ادا کی اور اسے فتح کی علامت کے طور پر مسجد میں تبدیل کیا۔ اسی وجہ سے معاشرے کے ذہن و دل میں اس جگہ کا ایک ناقابل تنسیخ مقام ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ 1934 میں آیا صوفیہ کی عجائب گھر میں تبدیلی کے فیصلے نے ملت کو آزردہ کیا۔ اس مقام کا اپنی اصل شناخت کی طرف واپس پلٹنا ضروری تھا۔ ریاستی مجلس شوریٰ 'دانشتائے' نے اسے پیش کی گئی درخواست کا حتمی فیصلہ سنا دیا ہے۔ آیا صوفیہ کی حیثیت سے متعلق حتمی فیصلے کا حق کسی اور کو نہیں صرف ترک ملت کو حاصل ہے۔ یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے۔ باقی ممالک کا کام صرف اس فیصلے کا احترام کرنا ہے۔لیبیا کے سیاسی بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ قابض حفتر اور اس کے حامیوں کا قبضہ پلان کامیاب نہیں ہو سکا۔ترکی اور لیبیا کے درمیان سمجھوتے کی یاد دہانی کرواتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اس سمجھوتے کے طفیل ترکی نے نہ صرف مشرقی بحرِ روم میں اپنے حقوق اور مفادات کو ضمانت میں لے لیا ہے بلکہ لیبیا میں اپنے بھائیوں کا بھی ساتھ دیا ہے۔صدر اردوان نے کہا ہے کہ سیاسی و اقتصادی لحاظ سے لیبیا کی مضبوطی شمالی افریقہ اور یورپ دونوں کے لئے سکون کا باعث ہو گی۔ بین الاقوامی برادری کو مشروع حکومت کا ساتھ دے کر اپنی طرف کو واضح کرنا چاہیے۔ جنگی جرائم کے مرتکب قابضوں کو روکا جانا چاہیے۔ لیبیا کو خون کی جھیل میں تبدیل کرنے والی فوجوں کو فوری طور پر اس ملک سے نکل جانا چاہیے۔ ان قابضوں سے ترہونہ اور دیگر متعدد شہروں سے ملنے والی اجتماعی قبروں کا حساب ضرور پوچھا جانا چاہیے"۔