مکرمی! 1985ء سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مسئلے کی طرف ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک نظر ڈالنا ہو گی کہ اس اہم ترین منصوبے کو کن نادیدہ طاقتوں کے اشارے پر سبوتاژ کیا گیا جو تاحال حل نہ ہو سکا۔ اس منصوبے کی سب سے زیادہ مخالفت پیپلزپارٹی نے کی جس کا خمیازہ اب سندھ میں پانی کی شدید قلت کی صورت میں عوام بھگت رہے ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم بن جاتا تو نہ صرف 3600 میگاواٹ بجلی 2 روپے فی یونٹ دستیاب ہوتی بلکہ 131 ملین فٹ پانی سمندر کی نذر ہونے کے بجائے صوبہ سندھ کو ملتا جس سے سندھ میں بدین، ٹھٹھہ اور دیگر اضلاع کی 40 لاکھ اراضی زیرکاشت آتی۔ کے پی کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں 20 لاکھ ایکڑ زمین آبپاشی سے محروم نہ رہتی۔ اگر پنجاب اور بلوچستان کی بات کریں تو بالترتیب پنجاب کا 22 لاکھ ایکڑ رقبہ اور بلوچستان 15 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوکر کسانوں میں خوشحالی لا سکتی اور سستی بجلی سے کارخانے کم لاگت پر اپنی مصنوعات مارکیٹ اور عالمی منڈی میں فروخت کرکے ریاست کیلئے زر مبادلہ کما سکتے تھے۔ آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں اس کی افادیت و ضرورت پر واپڈا کے ایک سابق چیئرمین ظفر محمود نے اخبارات میں 26 قسط وار آرٹیکل لکھنے پر پیپلزپارٹی کی نفسیہ شاہ اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے شدید اعتراض کیا جس پر اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ظفر محمود سے بحیثیت چیئرمین استعفیٰ طلب کر لیا۔ خورشید شاہ صاحب نے کالاباغ ڈیم پر بریفنگ لینے سے انکار کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ کالاباغ کی مخالفت کیلئے ان کے پاس ٹھوس دلائل نہیں تھے۔ (اقبال ملک ‘ لاہور)
کالا باغ ڈیم۔۔۔ضروری کیوں؟
Jul 13, 2021