’’اسیں اپنے آپے مر جانا‘‘

Jul 13, 2021

ہم نہ جانے کن کن مافیاز کے شکنجے میں جکڑے زندگی کو بے ڈھب انداز میں گزار رہے ہیں۔ کبھی ہم شوگر مافیا کی مسلط کردہ مہنگائی کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہوتے ہیں‘ کبھی فلور ملز مافیا اور آئل مینوفیکچررز اپنی من مانیوں پر اتر کر ہمیں یرغمال بنائے رکھتے ہیں اور کبھی فارماسیوٹیکل کمپنیاں کمیشن پر رکھے گئے اپنے ڈاکٹروں کے ہاتھوں کسی معمولی مرض کی بھی مہنگی ترین اور غیرضروری ادویات تجویز کراکے ہماری جیبوں پر ڈاکے ڈال رہی ہوتی ہیں۔ یہ سارے مافیاز درحقیقت حکومتوں کی چھتری کے نیچے پروان چڑھتے ہیں اور حکمران طبقات کے انکے ساتھ مفادات وابستہ ہوتے ہیں تو ان کیلئے حکومتی گورننس بھی آنکھیں موند لیتی ہے یا ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح اس ڈھیل میں یا خفیہ اور ظاہری آشیرباد کے تحت حکومتی چھتری کے نیچے ان مافیاز کے کاروبار چل اور چمک رہے ہوتے ہیں۔ عوام روزافزوں مہنگائی کے ہاتھوں لٹتے‘ پستے ہوئے چیخ و پکار کرتے ہیں تو حکومتی اکابرین کی جانب سے بھی محض طفل تسلی کیلئے مہنگائی پر تشویش کا اظہار اور اس پر قابو پانے کے اقدامات کی ہدایات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پڑھی‘ سنی اور دیکھی جانے لگتی ہیں مگر مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنا حکمران اور مافیاز کے مفاداتی طبقات کا مطمحٔ نظر ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے دکھاوے کو کسی بے ضابطگی‘ ناجائز منافع خوری اور اس مقصد کیلئے پیدا کی گئی مصنوعی قلت کے اسباب کی ’’تہہ‘‘ تک پہنچنے کیلئے انکوائری اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم ہو جاتے ہیں اور قوم کو لالی پاپ دے دیا جاتا ہے کہ فلاں کمیشن کی رپورٹ آتے ہی ’’کلپرٹس‘‘ قانون و انصاف کے شکنجے میں آجائیں گے‘ پھر رپورٹ منظر عام پر آتی ہے۔ مصنوعی گرانی اور قلت پیدا کرنیوالے کرداروں کے نام بھی سامنے آجاتے ہیں۔ دوچار دن سخت ایکشن اور متعلقین کو کیفرکردار کو پہنچانے کے دل خوش کن بیانات حکمران طبقات کی جانب سے سننے کو ملتے ہیں اور پھر مافیاز کے معاملات پر آنکھیں دوبارہ کبوتر کی طرح بند کرلی جاتی ہیں جیسے کوئی سانحہ جو گزر گیا ہے‘ کبھی رونما ہی نہ ہوا ہو۔ تو جناب! ان مافیاز کو حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور بھلا کیا ہو سکتا ہے کہ انکے معاملات میں انکوائری اور جوڈیشل کمیشنوں کی رپورٹیں بھی دب جاتی ہیں اور دھن دولت کی دیوی انہیں کورنش بجالاتی نظر آتی ہے۔ ان من مانیوں میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرکے صرف لوٹ مار ہی نہیں کی جاتی‘ دونمبر ادویات اور کھانے پینے کی ناقص اشیاء کی تیاری کیلئے جعلسازی کرکے انسانی صحت برباد کرنے کا مکروہ کھیل بھی آزادانہ کھیلا جاتا ہے۔ 
جب مافیاز کے معاملہ میں کسی احتساب اور جوابدہی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہ گیا ہو تو وہ اپنے تیار کردہ زہر کو بھی جام صحت بنا کر فروخت کرنے میں مکمل آزاد ہونگے‘ اور کسی بے چارے کو کوئی مرض لاحق بھی نہ ہو تو وہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے رکھیل ڈاکٹروں کے مشورے پر الابلا قسم کی ادویات استعمال کرکے مرض الموت کو گلے لگا بیٹھتے ہیں۔ مجھے مختلف عوارض کے باعث اپنی صحت کے حوالے سے تجسس رہتا ہے اور میں متعلقہ مرض سے افاقہ کیلئے دستیاب مختلف ادویات کی چھان پھٹک کرتا رہتا ہوں۔ گوگل سرچ سے بھی کچھ معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ بالخصوص شوگر‘ کولیسٹرول‘ یورک ایسڈ کی زیادتی کے اسباب و محرکات کا کھوج لگانے کیلئے میرا تحقیق کا عمل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ کئی عوارض کے حوالے سے تو کئی خوفناک انکشافات بھی میرے سامنے آجاتے ہیں۔ ہم شوگر کے دائمی مرض سے پریشان رہتے ہیں اور ڈاکٹر تبدیل کرتے ہیں تو ادویات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ کئی بے چارے تو صبح شام انسولین کا انجکشن لگا کر بے حال و نڈھال ہوئے ہوتے ہیں اور اذیت ناک زندگی گزارتے ہیں جبکہ میری تحقیق میں آنے والی ایک جید ڈاکٹر کی رپورٹ نے مجھے پریشان کرکے رکھ دیا جنہوں نے دنیا کے معروف ڈاکٹروں کی تحقیق اور عرق ریزی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 200 تک کے شوگر لیول پر کوئی شخص شوگر کے مرض میں لاحق نہیں ہوتا۔ مگر ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرتے کرتے وہ شوگر کا مریض بن جاتا ہے۔ انکے بقول شوگر کے مرض کا علاج ادویات سے زیادہ غدا کی پرہیز اور ایکسرسائز میں ہے۔ آپ پرہیزی غذا اپنا معمول بنالیں تو شوگر کا مرض آپکے قریب بھی نہیں پھٹکے گا مگر آپ چاہے کسی مستند ڈاکٹر سے بھی رجوع کرینگے تو وہ آپ کو خوفزدہ کرکے مختلف ادویات کے استعمال کا عادی بنا دیگا کیونکہ یہ ادویات تجویز کرنے کا ہی اس ڈاکٹر کو متعلقہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے کمیشن ملتا ہے۔ 
ارے صاحب! اور تو اور۔ معروف عالمی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے اب ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی خریدنا شروع کردیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے پھیلائو کے خوف میں مبتلا ہے اور اس سے چھٹکارے کا ہر ممکن چارہ کیا جارہا ہے۔ بے شک کسی مرض کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور جس قدرتی آفت نے گزشتہ تقریباً دو سال سے پوری دنیا کو جکڑا اور مضبوط معیشتوں تک کی تباہی کا اہتمام کر رکھا ہے‘ اسے تو ہرگز معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس مرض سے بچائو کیلئے چین‘ امریکہ‘ برطانیہ سمیت دنیا بھر کی مستند سائنسی‘ تحقیقاتی لیبارٹریوں میں کئی مہینوں کی ریسرچ کے نتیجہ میں مختلف ویکسیئنز منظرعام پر آئیں اور جھٹ پٹ ان کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ پھر مؤثر اور مضر صحت ویکسین کی مختلف تھیوریاں سامنے آئیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بعض ویکسیئنز کے بارے میں شکوک و شبہات بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں خود ایسٹرا زینیکا ویکسین لگوانے کے بعد اس کیخلاف جاری پراپیگنڈا سے متاثر ہوا اور نڈھال رہا تاہم اسکے مضر اثرات کے حوالے سے سارے شکوک و شبہات آہستہ آہستہ زائل ہوگئے۔ اس موذی مرض کا ویکسین ہی اس وقت واحد علاج ہے تو اس سے اجتناب کیوں‘ مگر ہمارے تو خود کئی ذمہ داران نے ویکسین لگوانے کے معاملہ میں شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں۔ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے جو خود ڈاکٹر بھی ہیں‘ باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کرکے ویکسین کے ممکنہ مضمرات سے لوگوں کو خوفزدہ کیا اور اعلان کیا کہ میں ہرگز ویکسین نہیں لگوائوں گی۔ اور اب تو کمال ہی ہو گیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل صحت میجر جنرل عامر اکرام نے گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے اپنے تئیں انکشاف کیا کہ پاکستانی باشندوں کو کین سائنو ویکسین اسکے مضمرات کا کھوج لگانے کیلئے بطور ٹرائل لگائی گئی جس سے پاکستان نے یہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنی سے ایک کروڑ ڈالر کمائے۔ انکے بقول کئی اور ممالک بھی اپنی ویکسین کے فیز تھری کا کلینکل ٹرائل پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہوگی۔ یقیناً اس مقصد کے تحت ہی ہر فرد کیلئے ویکسین لگوانا لازمی قرار دیا گیا ہے چنانچہ پاکستان اور پاکستانیوں کو محض کمیشن کی خاطر ویکسین کے مضمرات جانچنے کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند‘‘ ۔خدا اس قوم کو ہر افتاد و آفت سے محفوظ رکھے مگر ہمارا چال چلن تو ’’آبیل مجھے مار‘‘ والا ہی لگتا ہے۔ گویا۔۔۔؎
اسیں اپنے آپے مر جانا
ایہہ کِھچ لو رسّا پھاہے دا
=…=…=

مزیدخبریں