امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ نائن الیون کے بعد فوجی خدمات انجام دینے والے امریکی اہلکاروں میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس دورانیے میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 7 ہزار 57 اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ 30 ہزار 177 نے خودکشیاں کیں تھیں۔رپورٹ میں ایک اور اہم بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ امریکا میں ریٹائرڈ فوجیوں کی اکثریت نے نائن الیون کے بعد فوجی خدمات انجام نہیں دیں۔ لیکن جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا ہے، ان میں خود کشی کی شرح 2005ء سے 2017ء کے دوران ہر ایک لاکھ میں 32.3 فیصدی رہی اور 2018 میں یہ 45.9 فیصدی تک پہنچی۔فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔ جن میں دماغی چوٹ، زخم یا گھر سے دوری سمیت دیگر شامل وجوہات ہو سکتی ہیں۔لیکن رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جن امریکی اہلکاروں نے خود کشیاں کیں ہیں، ان میں سے بیشتر جنگی خدمات دینے کے حق میں نہیں تھے اور وہ اسی خوف کی وجہ سے ذہنی امراض کا شکار ہوگئے تھے۔ اس تحقیقی مطالعے میں فوجی خدمات انجام دینے والوں کو درپیش ذہنی، اخلاقی، جنسی مسائل، فوج کے اندر طاقت کے استعمال کا بڑھتا فروغ، بندوقوں تک کھلی رسائی اور واپس عام شہری زندگی میں شامل ہونے میں درپیش مشکلات کی نشان دہی کی گئی ہے۔2001 کے بعد سے ریٹائر فوجیوں میں خود کشی کی شرح عام شہریوں سے 1.5 گنا زیادہ رہی، جبکہ 18 سے 35 سال کی عمر کے فوجیوں میں یہ شرح عام شہریوں سے 2.5 گنا زیادہ دیکھی گئی ہے۔ تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 2017ئ سے 2018ئ کے دوران 36 سابق فوجیوں نے خود اپنی جان لے لی۔امریکی ماہرین کا ماننا ہے کہ افغانستان، عراق سمیت دیگر ممالک میں تعینات امریکی فوجی ذہنی امراض اور شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ امریکی فوجیوں میں گھروں اور اپنے اہل و عیال سے دور رہنے اورتمام وقت بے گناہ عوام کے قتل عام کی سوچ خودکشی کی بڑی وجہ بن گئی ہے۔افغانستان میں سال 2001 جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے۔ لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے۔ جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔افغان صدر اشرف نے پچھلے سال کہا تھا کہ 2014 میں ان کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔صدر غنی کا ہلاکتوں کے اعداد و شمار ظاہر کرنے کا فیصلہ غیر معمولی تھا۔ کیونکہ امریکی اور افغان حکومتیں عام طور پر افغان ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کرتی تھیں۔تاہم کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور بعض اوقات ایک دن میں اوسطاً 30 سے 40 اموات ہوتی ہیں۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے مطابق جب سے اس نے 2009 میں باقاعدگی سے شہری ہلاکتوں کا شمار رکھنا شروع کیا تھا۔ تب سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغان جنگ کے دوران امریکی فوجیوں کی مدد کرنے والے افغانوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہیں گے۔ ہمارے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو افغانستان میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے امریکی فوج کی مدد کرنے والے 20 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان افغان ترجمانوں اور دیگر افراد کو بھی افغانستان سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان افراد کی امریکا کی منتقلی کی درخواستوں پر کام جاری ہے۔ ممکنہ طور پر ان درخواستوں پر کام اگست تک مکمل ہوجائے گا۔ امریکا اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغان ترجمان اور دیگر افراد اپنی جانوں کی حفاظت اور محفوظ مقام پر منتقلی کے لیے گزشتہ دو ماہ سے ریلیاں نکال رہے ہیں۔ طالبان کی کارروائیوں اور انھیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ طالبان کی جانب سے اضلاع پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ ہر ایک دن کا مسلسل بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ صورت حال کیا ہے، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہمیں مزید کن ذرائع کی ضرورت ہے اور ہم نے افغانستان سے نکلنے کے لیے کیا رفتار رکھنی ہے۔یہ تمام فیصلے مطلوبہ وقت پر کیے جائیں گے۔ینٹاگون افغانستان میں اپنے کئی اہم اڈے حکومتی افواج کے حوالے کر چکا ہے اور مختلف ساز و سامان سے لدے سیکڑوں کارگو جہاز بھی ہٹا چکا ہے۔ تاہم جان کربی کے مطابق امریکی افواج طالبان سے لڑائی میں افغان فوجیوں کی مدد کرتی رہے گی۔جان کربی نے واضح کیا کہ جوں جوں واپسی کا عمل تکمیل کے قریب پہنچے گا، افغان فورسز کی مدد کا یہ سلسلہ کم ہوتا جائے گا اور اس کے بعد دستیاب نہیں ہوگا۔ فوجیوں میں بڑھتے خودکشی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے محکمہ دفاع نے مختلف قانون سازیاں اور منصوبے شروع کیے مگر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔