CONFUSION  VERSUS  CONFOUNDED 

مثال کچھ ایسی مناسب تو نہیں ہے لیکن کہے بن رہا بھی نہیں جا سکتا! کہتے ہیں سانسیوں کے گھر میں گوہّ (سوسمار) گھس آئی۔ وہ خوشی سے دُہرے ہو ئے چمٹے پکڑ کر بیک ’’آواز بولے‘‘ بسم اللہ پیرو وانڑی دیاں ، آنیاں کسی نیں ویخیا تے پھر جانیاں بھی کوئی نیں ویخے گا‘‘ (خوش آمدید، برہنہ پا ! اگر آتے وقت کسی نے تمہیں نہیں دیکھا تو پھر جاتے ہوئے بھی کوئی نہیں دیکھ پائے گا) کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ جمہوریت کی گوہ وطن عزیز میں گھس آئی ہے اور سیاست کے سانسی چمٹے اُٹھا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ سانسی کسی قوم نہیں بلکہ سوچ کا نام بھی ہے۔ 
فارسی زبان کا محاورہ خشتِ اول چُوں نہد معمار کج ثریا محدود دیوار کج‘ (اگر معمار پہلی اینٹ بھی ٹیڑھی لگا دے تو پھر کتنی ہی بلند و بالا عمارت کیوں نہ ہو ٹیڑھی ہی رہے گی) پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ معمار پاکستان بیماری کی وجہ سے ایک سال کے قلیل عرصے میں رحلت فرما گئے۔ جمہوریت کا پودا جڑ نہ پکڑ سکا۔ ان کے جانشین خود غرض ، مفاد پرست اور نااہل نکلے۔ ہندوستان اور پاکستان بیک وقت آزاد ہوئے۔ برصغیر تقسیم ہو گیا۔ اُدھر جواہر لعل نہرو اسے مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا تو اِدھر ہم اس پودے کو اکھاڑنے کا عزم کر چکے تھے۔ ایک معمر اور مخبوط الحواس بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ اس نے جس طرح امور سلطنت چلائے اس کی تفصیل ’’شہاب نامے‘‘ میں ملتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب اسکے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ وہ امریکہ سے ایک خوبصورت لڑکی مس روتھ بورل کوبطور پرسنل سیکرٹری لے آیا تھا۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ زندگی کے بقیہ دن اس کے سہارے گزار رہا ہے۔ فالج نے اسے حواس مختل اور نیم پاگل کر دیا تھا۔ اس کا واحد کارنامہ آئین ساز اسمبلی توڑنا اور خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرنا تھا۔ طبعاً برہنہ گفتار تھا۔ کوئی ایسی گالی نہیں جو اس نے ازبر نہ کر رکھی تھی۔ نکلتی بھی منہ سے گولی کی رفتار سے تھی۔ ایوب خان اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز) میں لکھتا ہے۔ ایک مرتبہ غلام محمد نے اسے اقتدار سنبھالنے کی پیشکش کی۔ انکار پر وہ سیخ پا ہو گیا۔
 He was emitting volley of abuses
اس سے بڑی مشکل سے جان چھوٹی تو اسکندر مرزا سب طبل و علم کا مالک و مختار بن گیا۔ یہ بھی بیوروکریٹ تھا۔ یہ فاتر العقل تو نہیں تھا لیکن ضرورت سے زیاد ہ چالاک تھا۔ ہردو کا ایجنڈا ایک تھا۔ ملک میں جمہوریت پنپ نہ سکے۔ آئین نہ بن پائے! اقتدار کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر اس نے مارشل لاء لگا دیا۔ سب اختیارات جنرل ایوب خان کو سونپ دئیے ۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک انگریز مصنف لکھتا ہے۔ 
Much to his strain, he found himself aboard a plane - London bound
لندن میں جس کسمپرسی کی حالت میں وہ رہا وہ داستان عبرت کا ایک المناک باب ہے۔
 کہاں جاہ و حشمت ناز و نخوت کا جہانِ چار سُو 
کہاں ’’سوز و ساز درد و داغ و جستجو و آرزو‘‘ 
فلپین کی امیلڈا مارکوس کی طرح دن میں چار لباس بدلنے والی ناہید ایک کمرے کے بوسیدہ فلیٹ میں اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتی تھی اور سابق صدر پاکستان ایک معمولی ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے؎
اس بلندی کے نصیبوں میں تھی پستی ایک دن!
ایوب خان نے 1956ء کا آئین منسوخ کر دیا اور ایک ایسا آئین مسلط کر دیا جس میں لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح چار سُو وہ خود ہی نظر آتا تھا۔ اپنے ایک گوہر یکتا کے مشورے پر جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کے لیے اس نے الیکشن کا اعلان کر د یا۔ اُسے بتایا گیا کہ الیکشن محض رسمی کارروائی ہو گی۔ Walk over ملک میں کوئی شخص اس کا مقابلہ کرنے کی جسارت نہیں کرے گا…اسکے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپوزیشن محترمہ فاطمہ جناح کو بالمقابل کھڑا کر دیگی۔ چارسو ہلچل مچ گئی۔ ایک بھونچال سا آ گیا۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ اور ہمشکل میدانِ عمل میں ! عوام نے ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ محترمہ کا استقبال کیا…خان کو پسینہ آ گیا۔ جیت ایک ڈرائونا خواب نظر آنے لگی۔ چنانچہ ’’جُھرلو‘‘ کا استعمال ناگزیر ہو گیا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ قلات کے کمشنر غلام سرور خان نے ڈویژن کے افسروں کو براہ راست بُلا لیا۔ بغیر کسی تمہید کے بولا ’’تمہاری نوکری اور میری نوکری صرف اس صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ ایوب خان کو سو فیصد ووٹ پڑیں۔ الیکٹورل کالج میں ملک کے اسی ہزار بی ڈی ممبران تھے۔کیدا جان محمد تربت کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے۔ قلات میں انہیں ناظم الحکومت کہا جاتا تھا۔ کیدا صاحب نے الیکشن سے ایک دن قبل اپنے علاقے کے سب بی ڈی ممبران کو دعوت پر بلا لیا۔ انہیں کچھ حیرت تو ہوئی لیکن دعوت نامہ کسی ایرے غیرے نے نہیں بلکہ حاکمِ وقت نے دیا تھا۔ کھانا مزیدار تھا۔ کیدا صاحب کا رعب و دبدبہ بھی حلم میں ڈھل رہا تھا۔ کھانے کے بعد جب مدعوئین نے اجازت مانگی تو کیدا صاحب نے ان سے حساب کا ایک آسان سا سوال پوچھ لیا۔ ‘‘ بتائو! سال میں دن کتنے ہوتے ہیں؟ ممبران سمجھے کہ شاید کوئی لطیفہ سنانے والے ہیں۔ اس ہائوس۔ ہو میں انہوں نے دیکھا کہ ناظم صاحب کے چہرے پر مزاح کی کوئی رمق نہ تھی۔ مسلح سنتریوں پر نظر پڑی جو دروازے پر بندوقیں تان کر کھڑے تھے! گھر کے درودیوار سُکڑتے اور سمٹتے ہوئے نظر آئے تو وہ سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ ’’ہمارے خیال میں 365 دن ہوتے ہیں‘‘ ’’تو پھر سوچ لو‘‘! کیدا صاحب گرجے 364 دن میرے ہیں صرف ایک دن تمہارا ہے۔ اگر کسی نے ووٹ ڈالنے میں غلطی کی تو وہ اپنے نفع نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا۔ چند لوگوں کے سوا سب نے آمنا و صدقاً کہا! معترضین کو ایک ٹرک میں لاد کر گر۔ گراوک ۔ پردم ۔ کی پہاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔ پیدل چلتے ہوئے جب وہ ہیڈ کوارٹر پہنچے تو اُن کا ووٹ ڈالا جا چکا تھا۔ (جاری) 

صدر صاحب کی ’’وکٹری اسپیچ‘‘ بہت متاثر کُن تھی۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ اُن سے بڑھ کر کوئی جمہوریت کا شیدا اس ملک میں پیدا نہیں ہوا۔ 
I am also greatful to those who diffeed with me. They too served the cause of democracy.
یہ شبد دراصل بیرونی دنیا کے لیے تھے۔ اِدھر جمہوریت کا بھاشن دیا جا رہا تھا تو اِدھر کراچی میں ان کا ’’پرنس آف ویلز‘‘ گوہر ایوب اپنے پٹھان گروہ کے ساتھ مخالفین کا ٹیٹوا دبا رہا تھا…ایوب خان نے دس برس تک حکمرانی کی۔ اگر صحت اجازت دیتی تو اقتدار کو مزید طوالت دے سکتا تھا۔ 1965ء کی جنگ کا بھی دل کی رگوں کو کمزور کرنے میں نمایاں حصہ تھا۔ بھٹو اور عزیز احمد کی انگیخت پر جنگ تو چھیڑ بیٹھا لیکن اسے Inconclusive war کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ لعل بہادر شاستری تو تاشقند میں ہی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پرلوک سُدھار گیا۔ ایوب کو کچھ وقت لگا۔ قوم اس معاہدے کو ہضم نہ کر سکی! دوست دست درازی پر اُتر آئے:
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!
چنانچہ اپنے بنائے ہوئے آئین کو پامال کرتے ہوئے اس نے اقتدار C.N.C یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ 
 یحییٰ خان نے 1970ء کے انتخابات نیک نیتی سے نہیں کروائے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ حکومت سازی کی اس کشمکش میں اسے اقتدار کو طوالت دینے کا جواز مل جائے گا۔ شیخ مجیب کو اکثریت تو مل گئی لیکن اقتدار منتقل نہ ہوا۔ چونکہ مغربی حصے میں بھٹو کو اکثریت مل گئی تھی۔ اس لیے اس نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ اقتدار منتقل نہ ہونے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ہندوستان نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا نتیجتاً ملک دولخت ہو گیا…کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو ٹانگ نہ اُڑاتا تو ملک نہ ٹوٹتا۔ یہ خام خیالی ہے۔ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات کو مان لیا جاتا تو پھر ملک پانچ حصوں میں تقسیم ہو جاتا۔ باقی صوبے ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان بھی چھ نکات کا تقاضہ کرتے اور ’’وزیر اعظم‘‘ شیخ مجیب بڑی خوشی سے انہیں اختیارات دے دیتا ہو سکتا ہے بھٹو کے مطالبے کے پیچھے ذاتی غرض چھپی ہوئی ہو لیکن استدلال درست تھا۔ 
ملک ٹوٹنے کے بعد بھٹو مغربی حصے کا وزیر اعظم بن گیا۔ 1973ء کا آئین بھی متفقہ طور پر منظور ہو گیا جو ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد اگر کوئی اختلافی آواز تھی بھی تو دب گئی۔ لیکن صوبوں کو اس بات کا علم نہ تھا کہ دوتہائی اکثریت کے بل بُوتے پر ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی آئین کا حُلیہ بگاڑ دیا جائے گا۔ 
جمہوریت تو آ گئی لیکن حاکموں کا آمرانہ ر ویہ نہ بدلا۔ زندانِ نازیاں کی طرز پر دلائی کیمپ قائم کئے گئے۔ مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا گیا کچھ کو تو عالم بالا میں پہنچا دیا گیا۔ غیر ت و غیر اپنے بھی ہوسِ حکمرانی کی لپیٹ میں آ گئے۔ جے ۔ رحیم ، مختار رانا ، معراج محمد خان حتیٰ کہ ’’شیر پنجاب‘‘ کھر کی دھاڑ بھی اس کے حلق کی سرنگ میں چند گرداب کھا کر دم توڑ گئی۔ 
ویسے ذوالفقار علی بھٹو ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ ایک بنیادی غلطی کر بیٹھا۔ اپنی مقبولیت کے زعم میں قبل از وقت انتخابات کروا بیٹھا…ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ پارٹی کے پردھانوں نے اسے نعمت سمجھتے ہوئے دھاندلی کی ہر حد عبور کر لی۔ نتیجتاً اپوزیشن نے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک بہت بڑی تحریک نظام مصطفی چلی جو مارشل لاء کے نافذ پر منتج ہوئی۔ ضیاء الحق مارشل لاء لگا کر ملک کے سیاہ سفید کا مالک بن گیا۔ 
شیکسپیئر نے کہا تھا To be thus is nothing than to be safely a thus.
شاہی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔
چنانچہ بھٹو کو رخصت کرنا ضروری ہو گیا۔ ایک کبیدہ خاطر جج نے اس کو سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔ بالآخر بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ پیپلزپارٹی اس کو اب بھی Judicial Murder سمجھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ بھٹو بے گناہ تھا یا قصوروار! تاریخ کے دھاروں کو موڑا نہیں جا سکتا۔ جب سوال your neck or my neck ہو تو پھر سر اس کا قلم ہوتا ہے جو نہتا ہو۔
ضیاء الحق نے طویل عرصہ تک حکمرانی کے بعد محدود پیمانے پر جمہوریت بحال کرنے کا اہتمام کیا۔ غیر پارٹی الیکشن میں پیر پگاڑا کے ایک مرید محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا، لیکن 52-2-B کی صورت میں کنٹرول اپنے پاس رکھا۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی جونیجو اپنے آپ کو سچ مچ کا وزیراعظم سمجھنے لگا۔ ضیاء الحق نے اسے سمجھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ’’ٹھنڈا کرکے کھا‘‘ لیکن اس حالت میں کچھ باتیں دیر کے بعد سمجھ میں آتی ہیں۔ اس کاسہو ٹوٹ کر اسے سرمست کر گیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی جس کا ذکر ابن خلدون نے خاندان برامکہ کے زوال پر کیا ہے۔
Haroon was often forced to the necessity of asking for and not getting from the small sums from the exchquer
ضیاء الحق کو معمولی فنڈز کے لیے بھی بار بار کہنا ڑتا۔ اس کے بیرون ملک شرکاء کی فہرست کو وزیراعظم آدھا کر دیتا۔
جونیجو غیرملکی دورے پر تھا تو اسے دیار غیر میں پتہ چلا کہ وہ وزیراعظم نہیں رہا۔ محض سندھی وڈیرہ رہ گیا ہے۔ واپسی پر اس نے ملاقات پر جنرل سے دو درخواستیں کیں۔ (i) اسے سرکاری جہاز پر سنڈھڑی بھیجا جائے۔ (ii) الٰہی بخش سومرو کو وزیراعظم نہ بنایا جائے۔ کس قدر معصوم خواہشات تھیں۔ پہلی پر تو ضیاء الحق مسکرا دیا۔ البتہ دوسری پر کیا۔ It is none of your business 
وقت نے جنرل کو جونیجو کا جانشین چننے کی مہلت نہ دی۔ ایک ہوائی حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ بینظیر اور نوازشریف باری باری وزیراعظم بنتے اور اترتے رہے۔ اس تمام عرصے میں ہر دہانے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ 101 روز سینٹ پرسنٹ نے الزامات لگائے۔ فوجداری مقدمات بنائے گئے۔ اقربا پروری اور دوستوں کو جائز ناجائز نوازنے کی حد کر دی گئی۔ ججوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ مخالف فریق کو سزائیں دیں۔ الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کے ریکارڈ توڑنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ ایک نے دوسرے کو جائز حکمران ماننے سے انکار کر دیا۔ حکومت گرانے کے لیے کئی لانگ اور شارٹ مارچ کئے گئے۔ جمہوری قدریں پامال ہوئیں۔ اس کی روح کو عملاً دفن کر دیا گیا۔
آخری ملٹری ٹیک اوور نوازشریف کے دوسرے دور میں ہوا۔ اپنے ہی آئوٹ ٹرن سلیکٹ کئے ہوئے آرمی چیف جنرل مشرف سے سینگ پھانسا بیٹھے۔ گو چیف کو بنانا اور ہٹانا وزیراعظم کا آئینی حق ہے، لیکن اس کے لیے بڑا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مشرف سری لنکا کے دورے کے بعد جہاز پر بیٹھا تو اسے ہٹا دیا گیا۔ پھر اس کمرشل فلائٹ کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملی جن میں مشرف کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا۔ میاں صاحب نے بھی ضیاء الحق والا طریقہ اختیار کرنا چاہا، لیکن وہ اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ وہاں مٹانے والا جنرل تھا۔ یہاں جس کو برطرف کیاگیا وہ ہنوز یونیفارم میں تھا۔ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتا تھا۔ وہ تمام حفاظتی بند باند کر عازم سفر ہوا تھا۔ کور کمانڈر جنرل محمود نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور تمام امور سنبھال لئے۔
ایک طویل جلاوطنی کے بعد میاں صاحب اور بینظیر واپس آئیں تو ان کے لیے سیاسی فضا کافی حد تک ہموار ہو چکی تھی۔ محترمہ الیکشن کمپین کے دوران دہشت گردی کا شکار ہو گئی۔ وقت آن پہنچا تھا وگرنہ انہیں ہر قسم کے خطرات سے بروقت آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس باغ کے اندر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھی گولی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ملک کے وڈیروں کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہوپا رہی تھی کہ ایک مہاجر اتنے بڑے ملک کا سربراہ ہے۔
اتنے بڑے سانحہ نے ملک میں پیپلزپارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی۔ زرداری نے بادشاہ بننے کی بجائے بادشاہ گر بننا زیادہ مناسب سمجھا اور ملتان کے یوسف گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا۔ خود بطور حفظ ماتقدم صدارت کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ قبلہ گیلانی صاحب نے اس عرصے میں جو گل کھلائے، وہ زبان زد خاص و عام ہیں۔ چونکہ کافی کام ’’چوری چوری، چپکے چپکے کرتے تھے، اس لئے زرداری ناراض تھے۔ زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ درحقیقت زرداری بھی یہی چاہتے تھے وگرنہ وہی خط ان کے جانشین وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے نہ لکھواتے۔
بڑی حیران کن بات ہے کہ میاں نوازشریف تیسری بار بھی وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ گو مسلم لیگ عملاً پنجاب تک محدود ہو گئی ہے، لیکن اس صوبے کی سیٹیں بقیہ تین صوبوں کو ملا کر بھی زیادہ بنتی ہیں۔ پارٹی کو قومی رنگ دینے کے لیے مخصوص حکمت عملی برتی جاتی ہے۔ دیگر صوبوں کے چیدہ چیدہElectibles کو وزارت کا عندیہ دیکر پارٹی میں شمولیت اختیار کرائی جاتی ہے۔ جیتنے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ پارٹی کی جڑیں تمام ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
عمران خان نے میاں صاحب پر دھاندلی کا الزام لگایا اور 126 روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ خان کی سادگی ملاحظہ ہو کہ ہر بار امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے رہے۔ امپائر کی ہمدردی اپنی جگہ، کچھ نہ کچھ پرفارمنس بھی دکھانا پڑتی ہے۔ وہ تو بھلا ہو ریحام خان کا جس نے شادی کرکے خان کو دھرنا ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔ ازدواجی زندگی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں خصوصاً جب نئی نویلی دلہن گھر میں آئی ہو۔
عمران خان کی کاوش بے سود نے ایک بات ثابت کر دی۔ دھرنوں اور ہڑتالوں سے حکومتیں نہیں جاتیں۔ بالفرض یہ بات درست ہے تو پھرکیا سوچ کر پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ ان کا ایک مارچ تو پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے۔ اگر لانگ مارچ کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ وطن عزیز میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ نہ اس دفعہ ہونگے۔ مولانا صاحب اور (ن) لیگ استعفوں پر زور دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے انکار کر دیا ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ان کے اپنے ممبر بھی یہ نہیں چاہتے اس سے کئیDesertions ہو سکتی ہیں۔ پھر اگر یہ رسم پڑ گئی تو کوئی حکومت بھی نہیں چل پائے گی۔ کل کلاں ہاری ہوئی پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگا کر استعفے دیکر حکومت گرانے کا مطالبہ کریںگی۔
جہانگیر ترین گروپ کے مطالبات نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندان والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اگر ان کی بات مانی جاتی ہے تو خان کو High moral ground چھونا پڑتا ہے۔ انکار کی صورت میں حکومت ڈانواں ڈول رہے گی۔ خان نے اسی صورت میں اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دی ہے۔ ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ بھول کر بھی یہ نہ سوچیں۔ اس صورت میں موسمی پرندوں کی اڑان دیدنی ہوگی۔
اس تاریخی تناظر میں اصل مسئلہ جمہوریت کا مستقبل ہے۔ کسی زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ تابناک نظر نہیں آتا۔ پولیٹیکل سائنس کا بنیادی اصول 
No theory is ever intelligible save in the context of its time.
.ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر نظام آزمایا جا چکا ہے۔ یہ نظام ناکام ہوا ہے۔ تو پھر کیا جائے؟ یہی لمحہ فکریہ ہے اور اسی کے متعلق ہمیں من حیث القوم سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن