سونامیوں میں گھِرگئے 

Jul 13, 2022

عبداللہ طارق سہیل

کراچی کو بارشوں نے ایسا دھویا اور ایسا ڈبویا کہ مت پوچھئے۔ سارا شہر پانی میں چھپ گیا، پانی گھروں میں گھس گیا اور جمع پونجی مال اسباب سب اس میں تیرنے لگا۔ ایسے میں بجلی بھی غائب، رابطے کٹ گئے۔ شاہراہوں پر کوئی گاڑی کیا چلے کہ کئی کئی فٹ پانی میں بڑی بڑی گاڑیاں تیرتی پھریں۔ چند برسوں سے کراچی بارشوں سے ہونے والی تباہی کی گرفت میں ہے لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ارباب اختیار نے کئی عشروں سے کراچی کی طرف سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور یہ اس کا ثمر ہے اور یہی نہیں، کراچی کی تباہی کی ایک بڑی وجہ وہ ’’پوش‘‘ رہائشی سوسائٹیاں ہیں جو شہر کے گردا گرد جھالر بن کر پھیل گئی ہیں خاص طور سے سمندر کی طرف والے راستے سبھی انہوں نے مسدود کردیے ہیں۔ پانی کا نکاس نہیں ہوتا، الٹ کر واپس آجاتا ہے۔ ان پوش سوسائٹیوں نے کراچی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور کسی حکمران میں طاقت نہیں کہ وہ ان سے پوچھ گچھ کر سکے، روک ٹوک کا تو خیر سوال ہی کہاں ، الٹا انہی کی ناز برداری ہوتی ہے۔ آہ، یہ ایلیٹ کلاس 
خیالِ خاطرِ ’’ایلیٹ‘‘چاہیے ہر دم 
انیس ٹھیس نہ لگ جائے ’’سنگ تودوں‘‘ کو 
٭٭٭٭
کچھ برس پہلے ، شاید ڈیڑھ دو سال کی بات ہے۔ عالمی بنک نے سندھ حکومت کو سینکڑوں ارب کا قرضہ دیا کہ نالے نالیوں کی صفائی ، مرمت اور تعمیر کرائو۔ ایسا ہو جاتا تو آج کراچی کے ڈوبنے کا سوال ہی ڈوب جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا، ساری رقم ڈوب گئی اور رقم کا یہ ڈوبنا کراچی کو لے ڈوبا۔ اب کوئی وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھے کہ اس رقم سے ٹھیکہ ٹھیک کیوں نہیں دیا، کیوں انہیں دیا جنہوں نے دامن بھرلیے اور کراچی کو تردامن کر دیا تو کہیں گے، مجبور تھا، گل و گلزار کو انکار کیسے کرتا، یہ تاب یہ مجال یہ طاقت کہاں مجھے۔ 
٭٭٭٭
کراچی سے ایک صاحب کا فون آیا۔ بولے ’’پاور بنک‘‘ سے فون چارج کیا ہے ورنہ بجلی تو دو دن سے ہے ہی نہیں۔ کہا، سڑکیں دریا اور گھر جھیلیں بن گئے، کوئی سرکار نظر آ رہی ہے نہ سرکار کی مشینری۔ صرف ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے کارکن ہیں جو اپنی سی کوشش کر کے پانی نکال رہے ہیں۔ کوشش کیا ہے، جوئے شیر کھودنے کی سعی ہے۔ پوچھا، وہ جماعت کہاں ہے جس نے الیکشن میں 14 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ فرمایا وہ یہاں نہیں ہوتی۔ پوچھا، پھر کہاں ہوتی ہے؟ بولے، ادھر بحریہ ڈیفنس وغیرہ میں ہو تو ہو، باقی کراچی میں نہیں ہوتی، کہیں بھی نہیں۔ پوچھا کہ کہیں بھی نہیں ہوتی تو 14 سیٹیں کہاں سے لے اڑی؟ بولے، وہ تو ایک جھونکا ہوا کا آیا تھا، سیٹوں سے دامن بھرا، پھر ہوا ہو گیا۔ آخری سوال پوچھا، یہ کیسا طلسماتی جھونکا تھا؟ بولے ،ارے جھونکا کہاں تھا، بادِ صرصر کا بگولہ سمجھ لیجیے۔ کراچی لاوارث تھا، لاوارث ہے، لاوارث رہے گا۔ 
٭٭٭٭
تباہی اندرون سندھ میں بھی ہوئی اور بلوچستان میں تو بہت ہی زیادہ ہوئی لیکن اس تباہی کی چنداں اہمیت نہیں۔ ہوتی تو قومی میڈیا پر بھی نظر آتی۔ نظر تو خیر آتی لیکن بس لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر…گاہے گاہے چاہے نہ چاہے، بس اس حد تک۔ بستیاں نابود ہو گئیں، سڑکیں اپنے پلوں سمیت بہہ کر بحر فنا کے گھاٹ اتر گئیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن چلیے ، یہ معاملہ بلوچستان کا ہے جانے دیجیے۔ لاڈلے حضور کی سرکار خاص والے صوبے پختونخوا کا حال بھی زبوں ہے۔ پشاور کیا ، صوابی کیا، دیر سوات کیا، سبھی پانیوں میں ڈوب گئے۔ مدد کا کوئی نام و نشان نہیں۔ کوئی باہر سے آئے تو کیا کہے گا، یہی کہ لگتا ہے، اس ملک میں ’’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘‘ کا کوئی تصور ہی نہیں۔ ارے بھائی تصور کیوں نہیں، اس نام کا ایک پورا ادارہ صحیح سالم، تندرست و توانا موجود ہے اور موجود تو ہے لیکن کہیں اور، کچھ اور ضروری مصروفیات میں مصروف ہو گا اور یہ باہر سے آئے ہوئے صاحب پھر یہ بھی پوچھیں گے کہ اس صوبے پرحکومت کس کی ہے، جواب میں بتایا جائے گا کہ سونامی سرکار کی سرکار بروئے کار ہے، اسم بامسمیٰ!
٭٭٭٭
پنجاب میں بادل ایک پھیرا لگا گئے۔ سوکھی دھرتی گیلی ہوئی، پھر سوکھ گئی۔ کئی دنوں سے کوئی بوند نہیں گری۔ اس کے بجائے آسمان سے حدت ٹپکتی اور زمین سے حبس پھوٹتا ہے۔ شجر مسلسل انتظار میں ساکت کھڑے ہیں کہ بادِنم کا جھونکا آئے، شاخ نبات کو جھولا جھلائے۔ خبر ہے کہ آج کل میں بارشیں شروع ہونے والی ہیں۔دیکھیے کیا ہو۔ اس بار عید پر عجب ماجرا ہوا۔ چار سال بعد دیکھا کہ عید کی آلائشیں اسی شام کو صاف۔ ورنہ چار سال تو ہم نے یہ دیکھا کہ ایک عید کی آلائش اگلی عید تک کا انتظار کرتے کرتے وہیں سوکھ اور گل سڑ جاتی تھیں۔ مجال تھی کہ کوئی انہیں میلی آنکھ سے دیکھ جاتا۔ بارشوں سے یاد آیا، پانی سڑکوں پر بھر جاتا اور شہباز شریف لمبے بوٹ پہن کر نکل آتے ان کے ساتھ افسر بھی۔ انصاف والے مذاق اڑاتے لیکن وہ پروا نہ کرتے اور دیکھتے دیکھتے پانی کو راہ پر ڈال دیا جاتا۔ یہی باقی پنجاب میں ہوتا۔ پھر انصاف والے آ گئے اور پنجاب ڈوبتا تو ڈوبتا ہی رہتا۔ اب پھر تبدیلی آئی ہے تو دیکھیے بارشوں میں کیا ہو، کیا نہ ہو۔ 
٭٭٭٭
عمران خان نے جنوبی پنجاب کے جلسے میں فرمایا کہ میں اس کا نام لے دوں گا جس نے مجھے آصف زرداری کا احتساب کرنے سے روک دیا تھا۔ لہجے سے پتا نہیں چلتا کہ آپ دھمکی دے رہے ہیں، اطلاع دے رہے ہیں یا اجازت طلب کر رہے ہیں۔ مطلب کچھ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ شیر کو بھگا رہے ہیں یا بلا رہے ہیں۔ بہرحال، مطلب اس فقرے کا یہ نکلتا ہے کہ آپ تو احتساب کرنا چاہتے تھے لیکن کسی نے روک دیا۔ پھر لڑائی ہو گئی تو اندر کی ہر بات باہر آ گئی۔ مطلب یہ کہ لڑائی نہ ہوتی تو یونہی چلتا رہتا۔ احتساب بھی رکا رہتا اور بات بھی چھپی رہتی۔ دیکھیے، لڑائی کے ثمرات۔ کیسی کیسی ’’اعترافی‘‘ خبریں باہر آ رہی ہیں۔ باقی نام لینے کی دھمکی، اطلاع یا اجازت طلبی والے بیانات اور خطابات تو کئی ماہ سے آ رہے ہیں۔ جون ایلیا یاد آ گئے 
آپ ، وہ ، جی مگر یہ سب کیا ہے 
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں