معیشت کا استحکام مثبت سیاسی رویے کا محتاج 

سیاست میں شدت پسندی نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے مہنگائی کے طوفان کو روکنا حکمرانوں کے بس میں نہیں رہا ، دنیا مہنگائی کے چنگل میں پھنس گئی ہے تمام حکومتیں مہنگائی کے سامنے بے بس اور لا چار ہیں ،سری لنکا بیرونی قرضوں کی بھر مارکی وجہ سے دیوالیہ ہوا ،ملک کی معیشت میں عدم استحکام کی وجہ سے غذائی بحران نے جنم لیا ، سری لنکا کے نئے وزیرِ اعظم رانیل وکرما سنگھے کے مطابق ملک میں بد حالی اور بد امنی کو جنم دینے والا معاشی بحران ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بد تر ہوگا ۔ سر ی لنکا کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ، 8 194 ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سری لنکا میں آنے والا یہ بدترین معاشی بحران ہے، اس معاشی و سیاسی بحران کے خلاف شہری شدید احتجاج کر رہے ہیں ، احتجاج کے دوران مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا ، جس کی وجہ سے صدر کو ملک سے فرار ہونا پڑا، سری لنکا کے معاشی بحران اور دیوالیہ ہونے کی وجوہات پاکستان کے حکومتی شراکت داروں کیلئے لمحہء فکریہ ہے، عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق سری لنکا کا دیوالیہ ہونا خطے کے بہت سے غریب ممالک کے دیوالیہ ہونے کی نوید ہے۔
پاکستان کی سیاست میں کبھی استحکام نہیں رہا ،اس کے باوجود معیشت بہت اچھی نہیں تو بُری بھی نہیں رہی ، البتہ آمروں کی طالع آزمائی نے ملکی معیشت کے قدم روکے اور سیاست میں تفریق پیدا کی ، 2013 ء سے ملک میں غیر سیاسی عناصر نے اقتدار کے حصول کی خاطر عوام کے دلوں میں سیاسی نفرت پیدا کی اور شدت پسندی کو ہوا دی ،یہ عناصر بظاہر ملک کو تبدیل کرنے کے دعوے دار بنتے ہیں،لیکن 2018 ء کے متنازع الیکشن میں دوسری جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی بنا پر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، اسکے باوجود ملک میں سیاسی استحکام اور ملکی معیشت کو سہارا دینے میں ناکام رہے ۔
عمران خان مسلسل سیاست میں نفرت اور شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں ، وہ اپنی پارٹی میں آمرانہ روش رکھتے ہو ئے کبھی بھی گوارا نہیں کرتے کہ ان کے حکم اور انکی سوچ کے برعکس کوئی پارٹی ممبر قدم اٹھائے یا زباں کھولے ،اگر کوئی پارٹی ممبر اپنے ضمیر کے مطابق حق سچ بولے تو عمران خان اسے اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اور اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے شدت سے اپنے ردِ عمل میں چاہیں گے کہ معاشرے میں ان ممبران کا سماجی طور پر جینا مشکل بنا دیا جائے حتیٰ کہ ان ممبران کے بچوں سے بھی چب معاشرے میں کوئی رشتہ نہ جوڑے ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے انہیں تاحیات نااہل کر دیا جائے ، ان کا سیاسی مستقبل تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ،عمران خان کی مخالفت کرنے والا ہر شخص چور ڈاکو اور کرپٹ تصور کیا جائے ، معاشرے میں ایسے شخص پر قدغن لگا دی جائیں اور اسے زندہ درگور کر دیا جائے ، عوامی مقامات پر انہیں برا بھلاکہلوایا جائے اور ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیا جائے ، جیسا کہ احسن اقبال کو ایک ریسٹورینٹ میں دیکھ کر عمران خان کے کچھ حامیوں نے ان کیخلاف نعرہ بازی کی ان کا یہ عمل قابلِ مذمت ہے ، بعدازاں اس فیملی نے احسن اقبال کی رہائش گاہ جاکر اپنے رویے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت طلب کی ان کا یہ عمل قابلِ تحسین ہے دنیا میں آج تک کسی سیاسی لیڈر نے ایسی روش نہیں اپنائی اور نا ہی کسی ممبر کے پارٹی چھوڑنے پر شدت پسندی کا مظاہرہ کیا ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے موجودہ سیاسی تنائو پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسلسل سیاسی محاذ آرائی کی طرف گامزن ہیں، سنجیدگی کو اپنانا ہوگا ،ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ، نفرت اور دشمنی کے الزامات والی شدید تقسیم اور پولرائزڈ سیاسی ماحول کی تنزلی پر فکرمنداور پریشان ہونا چاہئے ، ملک دن بدن شدیدپولرائزیشن کی جانب بڑھ رہا ہے سیاست میں گالم گلوچ اور تشدد کے کلچر کو سنجیدگی کے ساتھ ختم کرنا ہوگا ، عید قرباں کی تعلیمات کے مطابق نفرت ، عدم برداشت، بد تہذیبی اور الزامات کی سیاست کو دفن کرکے ایک دوسرے کو گلے لگانا ہی سنتِ رسول ﷺ ہے ۔ 
سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ملکی معیشت اور سیاسی ماحول کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو معاہدے کئے ان پر عمل درآمد نہیں کیا ، بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان پر کئی پابندیاں لگ سکتی تھیں ۔ اتحادی جماعتوں کے پاس ایک راستہ تھا کہ ملک کو گھمبیر حالات میں چھوڑ دیتے اور نگراں حکومت تشکیل پاتی جو کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قاصر رہتی، اور ملک میں شدیدمالی بحران بڑھ جاتا۔
عمران خان کے الیکشن کا مطالبہ ملکی معیشت کو ڈبونے کے مترادف ہے ، ملک کی معیشت الیکشن سے نہیں سیاسی استحکام سے بہتر ہوگی ، موجودہ اتحادی حکومت سیاسی استحکام کی خواہش رکھتی ہے جس سے معاشی استحکام ممکن بنایا جاسکتا ہے ، ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے ملکی معیشت کا استحکام مثبت سیاسی رویے کا محتاج ہے ، سرِ دست عمران خان کے رویے سے سیاسی استحکام بنتا نظر نہیں آتا ،سیاست میں ذ اتی عناد رکھنے اور متکبر رہنے سے ملکی معاملات نہیں سدھرتے گفت و شنید کے دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...