حقیقی عوامی انقلاب پاکستان کے محروم عوام کو یہ احساس اور عملی طور پر یہ باور کرانا کہ انقلاب کے بغیر ان کے مقدر میں تبدیلی ممکن نہیں اور پھر ان کو اس انقلاب کا روڈ میپ دینا شامل ہیں جن میں سب سے بنیادی شرط عام طبقے سے لوگوں کا اس عوامی انقلاب کی شاہراہ پر عملی شمولیت میں یقین اور اس کے بعد اس کے لئے قربانی کے لئے تیار رہنا ضروری ہے۔ انقلاب کا لفظ بڑا دلکش اور جذباتی متاثر کن ہے لیکن قومی سطح پر اس کے مقاصد کا واضح ہونا ضروری ہے اور گراس روٹ تک اس کی گونج پہنچ کے بغیراس کی تکمیل بظاہر ممکن نظر نہیں آتی ۔ عام لوگ اس تحریک میں صرف اس وقت شامل ہوں گے جب ان کو اس تحریک میں اپنی اتنی ہی اہمیت کا احساس ہو جتنا کسی بڑے مال ودولت والے کو اس تنظیم میں اپنی اہمیت کا احساس ہو۔ فیصلہ سازی میں بھی غریب عوام کو عملی طور پر حصہ دار ہونا ہو گا اور ان کو وہ عہدے دینا ہوں گے جن سے وہ خودمختاری سے اپنے سے بڑے یا کسی بھی تفریق کے بغیر بااثر لوگوں کی پوچھ گچھ کرنے کے مجاز ہوں۔ اس کے لئے مروجہ نظام کی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں اپنے قول و فعل میں سچ کو شامل کرنا اور اشرافیہ سے پوچھ گچھ اور نچلے طبقے کے لوگوں کوبغیر کسی تخصیص کے اہم عہدوں پر تعیناتی شامل ہے۔دوسرے سٹیپ کے طور پر ، تنظیموں کا متحدہ محاز بنانا، پھر بعد ازاں ایک انقلابی کو نسل تشکیل دینا اور متفقہ انقلابی ایجنڈا تیار کرنا اور یونین کونسل تک عوام کی اس میں بھر پور شرکت شامل ہونا ضروری ہے۔ اس اعلان کردہ عوامی تحریک کو کبھی پذیرائی نہیں مل سکتی جب تک اس میں عام لوگوں کی شرکت ، اس میں اہم عہدوں پر اشرافیہ کے بجائے نظرئے سے مخلص لوگوں اور ان کی عمل زندگی میں عام سطح کے رہن سہن کے لوگوں کو سامنے لایا جائے جن کا مقصد صرف اقتدار تک رسائی نہ ہو بلکہ لوگوں کو اس نئے نظام میں شمولیت کے بعد یقین ہو کہ یہی سے ان کے مسائل بغیر سفارش حل ہوں گے اور اشرافیہ کی بھی اسی طرح پوچھ گچھ ہو گی جس طرح کسی عام آدمی کی ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی عوامی انقلاب کی کامیابی کے لئے ملک کے اندر کے حالات، زمینی حقائق کا مواقف ہونا اور بیرونی دنیا ، خصوصی طور پر مروجہ سپر پاورز کے ساتھ تعلقات حالات کا ساز گار ہونا بہت ضروری ہے۔ قیادت کے لئے صالح ، قربانی دینے والے افراد چاہے ان کی تعداد معدودے چندہو ضروری ہے۔کسی بھی انقلابی تنظیم کے خدوخال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں آپ کو چوری کھانے والے مجنوں کی بجائے عملی جدوجہد کرنے والے افراد نظرآتے ہیں۔قریبی ممالک میں میں آپ اگر انقلاب ایران پر نظر ڈالیں، تو آپ کو جناب آیت اﷲ خمینی کی سحر انگیز شخصیت، اسکا ایک عام آدمی جیسا رہن سہن، کسی تفریق کے بغیر اپنے صاحبزادہ ، اور اپنے ساتھ فرانس میں سالوں گزارنے والے بنی صدر جیسے شحص کو صدر کے عہدے سے معزولی اور سزا وارقرار دینا شامل ہے جتنی دیر خمینی زندہ رہے انہوں نے کسی طبقہ کو ایرانی انقلاب کی راہ میں ،کسی اشرافیہ، کسی کماندار ، کسی بڑے سے بڑے امام یا مولانا کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا ۔ باقاعدگی سے الیکشن کروا کر عوامی شمولیت کو یقینی بنایا ان کا مسلم امہ کے حکمرانوں کو یہ مشورہ کہ آپ عوام کے دلوں پر حکومت کریںنہ کہ بزور طاقت ان پر مسلط رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ملکر بھی، تمام اقتصادی پابندیاں لگا کر بھی ایرانی عوام کو انکی حکومت کے خلاف نہیں کر سکے کہ وہ سڑکوں پر آ جائیں ۔ ایرانی عوام بڑے حوصلے سے ان مغربی ممالک کی عائد کر دہ پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں کہ ان کے حکمران بھی ایران اور ایرانی انقلاب کے لئے ان کی طرح قربانی دے رہے ہیں۔ آپ کسی ایرانی لیڈر کی آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں بیرون ممالک میں اثاثے نہیں دیکھیں گے ورنہ کبھی کا ایرانی انقلاب مغربی طاقتوں کی سازشوںکا شکار ہو کر انقلاب کا را ستہ چھوڑ چکا ہوتا۔اس کے لئے قیادت سمیت تمام ایرانی قوم ہر قسم کی سخت اقتصادی پابندیوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہے اور اپنی آزادی کا ابھی تک تخفط کرنے میں تن تنہاکامیاب جارہی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے یہ انقلاب انیس سو اناسی میں شاہ ایران کو نکال کر بڑی جانی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ چینی روسی، فرانسیسی ، کیوبن کے ما سوا دوسرے تمام انقلابوں کے اسباب و واقعات پر اگلی قسط میں بحث کی جائے گی۔اور پھر آج کے پاکستان معروضی حالات کے مطابق اس کا تقابلی جائزہ اور عملی حل پیش کیا جائے گا۔
حقیقی عوامی انقلاب کیسے؟
Jul 13, 2022