وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں گزشتہ دو ہفتے سے جاری شدید بارشوں میں ہونیوالے جانی اور مالی نقصانات پر دلی افسوس اور متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو دس لاکھ روپے فی کس ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ اور ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی سے ٹیلی فونک مشاورت کے بعد کیا۔ انہوں نے شہریوں کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر انہیں زرِتلافی دینے کا اعلان بھی کیا۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کے مابین ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنما نے وزیراعظم کو کراچی میں بارشوں کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے شہریوں کے جانی اور مالی نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر خالد مقبول صدیقی نے مشکل حالات میں کراچی کے شہریوں کی دادرسی کا مطالبہ کیا جس پر وزیراعظم نے بارشوں سے متاثرہ شہریوں کو زرتلافی دینے کا اعلان کیا۔ اسی طرح وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کے مابین بھی رابطہ اور نقصانات کے ازالہ کیلئے مشاورت ہوئی۔ وزیراعظم نے اس یقین کا اظہار کیا کہ سندھ حکومت اس موقع پر فوری حرکت میں آئیگی اور وزیراعلیٰ سندھ جیسی باصلاحیت قیادت زندگی معمول پر لے آئیگی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو بحالی کے امدادی کاموں میں ہر ممکن تعاون کی بھی پیشکش کی۔
اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت غیرمعمولی بارشوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود ان بارشوں سے شہریوں کو غیرمعمولی نقصانات سے بچانے کے اقدامات اٹھانے میں مکمل ناکام رہی ہے اور کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں 20 جون سے شروع ہونیوالے بارشوں کے سلسلے نے 12 جولائی تک تباہ کاریوں کی داستانیں رقم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق 21 روز کی بارشوں کے دوران مختلف واقعات میں مجموعی 26 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ شہریوں کی املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ صرف کراچی میں بارشوں کے دوران مختلف حادثوں میں 14 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے چھ کا تعلق ضلع شرقی اور چار کا تعلق کورنگی سے تھا۔ پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ضلع وسطی‘ ضلع جنوبی‘ ضلع غربی اور ملیر میں ایک ایک شخص جاں بحق ہوا۔ اسی طرح سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں 9‘ خیرپور میں دو اور سکھر میں ایک شخص بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں جاں بحق ہوا۔
یہ حکومتی گورننس کا المیہ ہے کہ کراچی کے بیشتر علاقے بشمول ڈی ایچ اے‘ اولڈ سٹی ایریا‘ سی ویو‘ کلفٹن‘ ملیر‘ فیڈرل بی ایریا‘ نارتھ ناظم آباد عملاً ڈوب چکے ہیں جہاں پانی کا مناسب نکاس نہ ہونے کے باعث سیلابی ریلوں کی شکل میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔ کراچی کی بیشتر شاہراہوں اور سڑکوں کا وجود پانی میں ڈوبنے کے باعث عنقا ہے اور شہریوں کو آمدورفت کیلئے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اکثر علاقوں میں شہری کشتیوں کے ذریعے نقل و حمل کی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں جن کی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کلپس کے ذریعے کراچی کے شہریوں کی بے بسی‘ کسمپرسی اور مقامی انتظامیہ کی غفلت و بے عملی کی اندوہناک داستانیں سامنے آرہی ہیں جس کے باعث بالخصوص سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت لوگوں کی تنقید کے ہدف پر ہے جبکہ کراچی کے شہری اس ٹوٹنے والی افتاد کے باعث حقیقی معنوں میں عیدالاضحی کی خوشیاں بھی نہیں منا سکے اور جانور و قربان کرنے کا سلسلہ بھی موقف ہوتا رہا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونیوالی بارش نے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ مون سون کا پہلا سپیل تین ماہ کی اوسط بارشوں سے بھی تجاوز کر گیا۔ سب سے زیادہ بارش ڈی ایچ اے میں ریکارڈ کی گئی جو 233.2 ملی میٹر تھی۔ اسی طرح کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی ریکارڈ بارشیں ہوئیں۔ ’’ارلی وارننگ سنٹر‘‘ کے مطابق کراچی‘ حیدرآباد‘ ٹھٹھہ‘ میرپورخاص‘ عمرکوٹ اور بدین کے اضلاع میں نشیبی علاقوں میں جمع ہونیوالا پانی سیلاب کا باعث بن سکتا ہے جبکہ مون سون کا دوسرا سسٹم 14 جولائی سے کراچی اور گردونواح میں تیز بارشوں کی صورت میں شروع ہوگا جو 18 جولائی تک جاری رہے گا۔ اگر اس وقت تک موجودہ پانی کا نکاس نہ کیا گیا تو بارشوں کے نئے سلسلے سے پہلے سے بھی زیادہ تباہ کاریوں کے امکانات ہیں۔ اس سلسلہ میں محکمہ موسمیات نے انتظامیہ کے متعلقہ حکام کو الرٹ کال دیتے ہوئے انہیں بارشوں کے نئے سلسلے سے ہونیوالے ممکنہ نقصانات سے آگاہ کیا ہے اور انہیں فوری ضروری اقدامات کا کہا ہے۔
بے شک زلزلے‘ طوفان‘ تیز بارشیں اور انکے نتیجہ میں آنیوالے سیلاب‘ قدرت کی جانب سے ہماری آزمائش کے زمرے میں آتے ہیں تاہم ان سے عہدہ برأ ہونے کیلئے بھی قدرت نے انسانی ذہنوں میں حکمت و تدبر کے بے شمار راستے نکال رکھے ہیں۔ جو قومیں قدرت کی ایسی آزمائشوں پر حکمت و تدبر کے بہتر راستے اختیار کرتی ہیں وہ ایسی آزمائشوں والی زحمت کو بھی نعمت میں تبدیل کردیتی ہیں جبکہ جن معاشروں میں بے تدبیریوں اور غفلت شعاری کا غلبہ ہوتا ہے وہ قدرت کی ایسی آزمائشوں کے آگے خود بھی ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اگر اس پیرائے میں ہماری دھرتی پر ہونیوالی موسمی بارشوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہمارے لئے ایک طرح سے قدرت کی نعمت غیرمترقبہ ہے جس کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر اور سٹور کرکے ہم پانی کے اس خزانے سے بے بہا فائدے سمیٹ سکتے ہیں۔ ہم اسکی بدولت اپنی دھرتی کو خشک سالی اور قحط سالی سے بچا سکتے ہیں اور توانائی کے منصوبوں کیلئے بروئے کار لا کر اس شعبے میں خودکفالت حاصل کر سکتے ہیں۔ پانی سٹور کرنے کا بہترین ذریعہ ڈیمز ہوتے ہیں جن کے پونڈز میں سارا بارشی پانی ذخیرہ کیا اور بوقت ضرورت کام میں لایا جا سکتا ہے مگر ہماری سیاست کے مفاد پرست طبقات نے اپنی علاقائی سیاست چمکانے کیلئے یا کسی کے ایماء پر ڈیمز کی تعمیر کی مخالفت کرکے ملک اور عوام کو نہ صرف پانی کی نعمت سے مستفید نہیں ہونے دیا بلکہ اسکی سیلاب کی شکل میں تباہ کاریوں کے راستے بھی کھولے۔ ان عناصر کو بھی حالیہ بارشوں سے سندھ میں ہونیوالی تباہ کاریوں پر اب عقل آجانی چاہیے۔ اگر آج کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو کیا ان نقصانات کی نوبت آتی؟ اب وزیراعظم نے ان تباہ کاریوں پر متاثرین کو زرتلافی دینے کا اعلان کیا ہے تو وہ بھی قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کے ہی مترادف ہو گا۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت تو گزشتہ دو دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی مؤثر حکمت عملی طے کرنے کے معاملہ میں اب تک غفلت شعاری کا شکار ہی نظر آتی ہے۔ حالیہ بارشوں سے ہونیوالے نقصانات نے جس قومی المیہ کو جنم دیا ہے‘ حکمران طبقات کو بہرصورت اس کا احساس و ادراک ہونا چاہیے بصورت دیگر عوام میں بڑھتا غم و غصہ انہیں بھی بارشوں کے پانی کے سیلاب میں بہا کر لے جائیگا۔