شیر صاحب اور دھوپ کا غسل

تسنیم جعفری
(آخری قسط)

 آنٹی لومڑی بھی یہی چاہتی تھیں اسی لئے تو شیر صاحب کی اتنی خوشامد کر رہی تھیں۔
’’بہت بہت شکریہ شیر صاحب‘ آپ کا اقبال بلند ہو آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔! آپ نے اپنی آنٹی کی  عزت رکھ لی۔ میں تو پہلے ہی سارے  جنگل میں آپ کی فرمانبرداری‘ سخاوت اور دریا دلی  کی تعریف کرتی ہوں‘‘۔
اتنی دیر میں شیر صاحب دوبارہ سو چکے تھے‘ ان کے خراٹوں کی آواز سن کر آنٹی لومڑی مسکرائیں اور بڑی شان سے گردن اکڑا کر اپنے گھر کو چل دیں۔
آج تو پورے جنگل میں ان کی شان اور بھی بڑھ گئی تھی اور بھیڑیا ظالم ٹھہرا تھا۔ بھیڑیے کو غصہ تو بہت آیا تھا کہ بی  لومڑی مفت میں اس کے گھر کی مالک بن گئی تھی‘  لیکن اس کو اچھی قیمت مل گئی تھی اس لئے چپ ہوگیا۔ 
 ابھی شیر صاحب کی نیند پوری نہ ہوئی تھی کہ سمندر سے ایک کیکڑا نکلا‘  وہ ٹیڑھا ٹیڑھا چلتا ہوا آیا اور شیر صاحب کی آرام کرسی  سے جا ٹکرایا۔
’’اب کیا ہوا ہے بھئی۔۔؟‘‘ شیر صاحب پھر بوکھلا کر اٹھ بیٹھے
’’ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں جناب۔۔۔۔!‘‘ ایک آواز آئی
’’کون ہے۔۔۔؟کہاں ہے۔۔۔۔۔؟ محافظ۔۔۔۔۔ دیکھ یہ آواز کس کی ہے۔۔۔۔؟ لگ بگڑ بھاگا ہوا آیا۔
’’ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ جناب والا۔۔۔۔۔ یہ کیڑا ہے‘ آپ کی کرسی کے نیچے‘ ہی ہی ہی۔‘‘
’’اچھا اچھا جو بھی ہے یہاں کیوں آیا ہے؟ اس کو پتا نہیں ہے کہ یہ ہمارے آرام کا وقت ہے؟‘‘ شیر صاحب بہت ناگواری سے بولے
’’جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے جناب۔۔۔۔!‘‘ کیکڑا بولا
’’یہ کون بدتمیز ہے جو ہمیں کھوتا کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟ اس کا سر قلم کر دو۔‘‘ شیر صاحب کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوئیں تو لگڑ بگڑ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔
’’ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ جناب معاف کر دیں‘  یہ بے چارہ بہت دکھی ہے۔‘‘
’’یہ کونسی نئی بات ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو اس جنگل کا ہر باسی ہی دکھی لگتا ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ لیکن جناب والا یہ جنگل کا باسی نہیں۔۔۔۔۔ اس کا تعلق تو سمندر سے ہے۔۔۔۔ ! ہی ہی ہی۔‘‘
’’تو پھر یہ اپنے بادشاہ ہشت پا (آکٹوپس)  کے پاس جائے۔۔ ہمارے پاس کیا لینے آیا ہے۔۔؟
’’جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں جناب والا۔۔۔۔؟‘‘ کیکڑا گڑ گڑاتے ہوئے بولا
’’بولو۔۔۔۔! لیکن ذرا جلد بولو۔۔۔۔۔ تم نے پہلے ہی میری نیند خراب کر دی۔‘‘ شیر صاحب کی سرخ سرخ آنکھوں میں نیند بھری تھی‘  وہ بامشکل سن اور دیکھ پا رہے تھے۔
’’بادشاہ سلامت کیا عرض کروں۔۔۔ جیسے ہی میں نے پانی سے سر نکالا۔۔۔ آپ کی آنٹی  لومڑی نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کر دیا‘ وہ مجھے کھا جانا چاہتی تھیں۔‘‘
’’ہاں تو تم نے پانی سے نکلے ہی کیوں۔۔۔۔؟ اپنی حدود میں رہا کرونا۔۔۔! شکر کرو بچ گئے ہو۔‘‘  شیر صاحب نے تو الٹا اسی کی کلاس لے لی‘ اب وہ کیا کہتا۔ کان دبا کر وہاں سے نکل گیا۔
اس کے چلے جانے کے بعد شیر صاحب نے سکون کا سانس لیا‘ اپنی چھتری کو ٹھیک کیا کیونکہ اب سورج مشرق کی جانب چلا گیا تھا اور اس طرف سے دھوپ سیدھی منہ پر پڑی رہی تھیں۔ پھر ان کو خیال آیا کہ محافظ کو بھی تنبیہ کر دوں۔
’’او لگڑ بگڑ۔۔۔۔۔! کان کھول کر سن لو‘ اب اگر کوئی یہاں میری نیند خراب کرنے  آیا تو تمہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دوں گا۔۔۔۔ پھر یہی کیکڑا تمہیں کاٹ کھائے گا۔‘‘
شیر صاحب کے غصے سے تو لگڑ بگڑ کی پہلے ہی جان جاتی تھی‘  وہ کانپتا ہوا اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا اور کان کھڑے کرکے ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کوئی آ تو نہیں رہا‘ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب  جو کوئی بھی آیا اس کی ٹانگیں توڑ دے گا۔
ابھی شیر صاحب اپنی چھتری ٹھیک کرکے سونے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ اوپر سے ایک سمندر پرندہ شور مچاتا ہواآ گرا۔ جس کے پیچھے ایک خوں خار باز لگا ہوا تھا‘ اس بار تو شیر صاحب کی جانب ہی نکل گئی کہ اب یہ بلائے ناگہانی کہاں سے نازل ہوئی‘ بوکھلا کر اٹھے اور اپنے محل کی جانب دوڑ لگا دی‘ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ان کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو گارڈ لگڑ بگڑ بھی ڈر گیا اور بھاگ کھڑا ہوا‘ دونوں آگے پیچھے بھاگے چلے گئے۔ اپنے محل میں گھس کر شیر صاحب نے محافظوں کو حکم دیا کہ گیٹ بند کر دیا جائے۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹ کر لمبے لمبے سانس لینے لگے اور توبہ کر لی کہ آئندہ کبھی ساحل سمندر پر جا کر قیلولہ نہیں کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن