چادر اور پاوں

Jul 13, 2022

کہتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ جس چیز پر بات ہوتی ہے وہ موسم ہے،،سلام دعا ،حال چال کے بعد موسم کی تعریف ہوتی ہے یا اسے کوسنے دیئے جاتے ہیں،،لیکن ہمارے یہاں تو مہنگائی اب سلام دعا سے بھی اگے نکلنے کو ہے،،ویسے تو مہنگائی ہر دور کا مسئلہ رہی ہے،،یاد نہیں پڑتا کہ کبھی یہ سنا ہو کہ بہت سستائی ہوچکی ہے۔ ہاں جب وہ وقت گزر جاتا ہی تو پھر یاد آتا ہے کہ کتنا سستا دور تھا۔ کبھی تو بوڑھے بزرگ اپنے دور کی قیمتیں بتا کر سب کو حیران کیا کرتے تھے اب تو اپنے ہی دور کی چند سال پرانے قیمتیں دیکھ کر حیرانی کم پریشانی زیادہ ہوتی ہے۔ 
سوچیں صرف چند سال پہلے پیٹرول اسی روپے لیٹر سے بھی کم میں مل رہا تھا یقین مشکل سے ہی آئے گا ،، 
مہنگائی ملک کی عوام کا ہی نہیں حکومتوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے ہر حکومت کو  مہنگائی اس کے آئندہ حکومت میں آنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ لگتی ہے اسی لئے وہ کم از کم اپنے آخری سال میں عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف کا لالچ دے کر اگلی حکومت میں سیٹیں کنفرم کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں،، لیکن اب تو معلوم ہوتا ہے کیا حکومت کیا عوام سب ڈھیٹ بن چکے ہیں،لگتا ایسا ہے کہ حکومت کو پرواہ ہی نہیں کہ اس نے الیکشن میں بھی جانا ہے اور عوام کو دیکھ کر تو اب کے مار کے دیکھ والی مثال یاد آتی جس میں ایک شخص دوسرے کو تھپڑ مارتا ہے تو وہ کہتا ہے اب کے مار کے دیکھ۔  دوسری لگتی ہے پھر بولتا ہے اب کے مار کے دیکھ اور ہر تھپڑ کے بعد یہی کہتا ہے اب کے مار کے دیکھ۔،،،ہر نئی حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہے اور سابقہ حکومت کی کارکردگی مہنگائی کا بہانہ اورپھر امیدوں کا محورو مرکز وہی آئی ایم ایف،  
پاکستان میں آئی ایم ایف ویسے تو  ایک سیاسی گالی بن چکی ہے۔ اس کے باوجود کہ اب تک پاکستان  تیس سے زیادہ بار مدد کے لئے آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹا چکا ہے حکومت میں رہنے والی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس نہ گئی ہو اور بطور اپوزیشن حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر لعن طعن نہ کی ہو۔  آئی ایم ایف کے طعنے اپوزیشن کا سیاسی نعرہ اور آئی ایم ایف کے در پر حاضری حکومتوں کی سیاسی مجبوری بن چکی ہے  آئی ایم ایف دراصل ایک عالمی ادارہ ہے جس کا مقصد پاکستان جیسے ملکوں کو دیوالیہ پن جیسے خطرات سے بچانا ہوتا ہے۔ کوئی ملک دیوالیہ تب ہوتا ہے جب وہ اپنے واجبات ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ تو جب کوئی آپ کو اتنے برے حالات سے نکالنے میں مدد دے تو اس کو برا بھلا کہنا کہاں کا انصاف ہے۔ حساب کتاب تو ان کا ہونا چاہئے جو ملک کو اس نہج تک لائے۔ آئی ایم ایف بھلا خود تھوڑی آپ کو بلاتا ہے،آپ ہی پلیز ہلیپ کا کشکول لے کر خود اس کے پاس جاپہنچتے ہیں،،اب آئی ایم ایف قرض جسے آئی ایم ایف پروگرام کہا جاتا ہے کی ادائیگی کے ساتھ اس قرض کا مطلوبہ مقاصد کے لئے استعال کرنے کا فارمولا بتایا ہے اور ایسی معاشی اصلاحات بھی تجویز کرتا ہے جس سے قرض کی اس رقم سے  مطلوبہ اہداف حاصل ہوسکیں۔  آئی ایم ایف پہلی بات یہی کہتا ہے کہ سبسڈیز ختم کریں پیٹرول بجلی جتنے میں خرید رہے ہیں اتنے ہی میں دیں۔ کیوں کہ آپ کی اتنی گنجائش ہی نہیں ۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف معاشی اصلاحات تجویز کرتا ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ اگر آپ کو ایک گاڑی کے لئے ایک ڈرائیور چاہئے تو چار چار کیوں رکھے ہیں صرف ایک رکھیں پھر وہ کہتا ہے کہ اپنے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کچھ کم کردیں۔۔یعنی بچت کریں،، یہ سب وہی باتیں ہیں کہ کسی گھر میں اگر پیسوں کی تنگی آجائے تو کی جاتی ہیں،، ۔ لیکن ملک پر پیسوں کی تنگی آجائے تو ہمیں ایسا سننے میں بھی برا لگتا ہے۔  اب جب پیٹرول ناقابل یقین حد تک مہنگا ہوچکا ہے دیگر اشیا قیمتیں بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہیں تو مجبورا ہی سہی کہیں کہیں کچھ بچت کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ دفاتر جانیوالے بہت سے ملازمین اب اکیلے خالی گاڑی دوڑائے کی بجائے کار شیئرنگ کے فارمولے بنارہے ہیں ہر سبزی میں چکن لازمی ڈالنے والوں کو اب خالی سبزی بھی مزا دینے لگی ہے۔شادیوں میں خرچوں کے جھنجٹ کم کرنے کے لیکچر بھی سننے کو ملتے ہیں، زندگی میں  سادگی اختیار کرنے کا مذہبی درس بھی یاد آگیا ہے بات وہی ہے ایک لڑکے نے کہا کہ اللہ والد صاحب کو جنت نصیب کرے جب تک زندہ تھے کسی چیز کی فکر نہیں تھی تو قریب بیٹھے بزرگ نے کہا کہ بیٹا، جب والد صاحب زندہ تھے تب فکر کرلیتے تو شاید آج بھی والد صاحب زندہ ہوتے۔ 
دیوالیہ پن کے بعد خود انحصاری مجبوری بن جاتی ہے۔  معاشی دیوالیہ پن نے کئی قوموں کو اپنے پاؤں پربھی کھڑا کردیا۔ ہر شر میں خیر کا پہلو ،ہر بحران میں موقع ضرور ہوتا ہے موجودہ معاشی بحران میں شاید یہی موقع ہوسکتا ہے کہ ہم پیسہ بچانا ،مطلب پیسے کمانا، کے اصول کو اپناتے ہوئے حالات کا مقابلہ کریں اور اہنے پاوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں یا پھر صرف حالات کو کوستے رہیں،، چادر دیکھ کر پاوں پھیلائیں یا پاوں پھیلا کر چادر کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔۔کچھ نہ کچھ تو خود بھی کرنا ہوگا

مزیدخبریں