بارشیں.... ذمہ داران، ذمہ داری کا مظاہرہ کریں....!

پانی نعمت رب جلیل ہے، جس کے بغیر زندگی محال ہے، بارش پانی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ اور رحمت خداوندی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی کتاب لازوال قرآن مجید، فرقان حمید میں بار بار مشاہدہ¿ قدرت، اور کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے متوجہ کرتا ہے کہ وہ کس طرح آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعے مردہ پڑی ہوئی زمین میں جان ڈال دیتا ہے۔ سورة البقرہ کی آیات 163 اور 164 میں رب العالمین عقل سے کام لینے والوں کو اپنی نشانیاں شمار کرواتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ” تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ (اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاﺅں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواﺅں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔“ (ترجمہ: سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔ پھر اسی ضمن میں سورة النور آیات 43 تا 45 میں آنکھوں والوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے: ”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ اور وہ آسمان سے، ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں۔ اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کئے دیتی ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔ اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا ہے، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ (تفہیم القرآن) گویا خود خالق نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ پانی ہی ہر جان دار کی حیات کی بقا کا وسیلہ ہے.... مگر یہی پانی، یہی بارش، جو رحمت کے طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے، اس وقت زحمت بن جاتی ہے، جب انسان اس کی ناقدری کرتا ہے، چنانچہ انسان کی بے تدبیری کے سبب پانی راحت کی بجائے مصیبت بن جاتا ہے، جیسا کہ سورہ¿ نور کی آیات بالا میں بھی متنبہ کر دیا گیا ہے کہ یہی بارش کچھ لوگوں کے لیے نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ اس سے محفوظ رکھے جاتے ہیں....!!!
پاکستان میں مون سون کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ سرکاری اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ان ایام میں بارشوں کا گزشتہ تیس برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، ان ابتدائی بارشوں سے اب تک ملک بھر میں کم و بیش اسی افراد جان، کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ، 48 کا تعلق پنجاب سے ہے، ان قبل از وقت اور معمول سے کہیں زیادہ بارشوں کا سبب بین الاقوامی سطح پر، ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں بتائی جاتی ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان اس خطہ میں واقع ہے جو ان موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، گزشتہ برس بھی پاکستان کو غیر معمولی بارشوں کے باعث تباہ کن اثرات برداشت کرنا پڑے تھے ملک کے مختلف حصوں میں ان بارشوں نے جو تباہی مچائی تھی، ماضی میں اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق اگست 2022ءمیں ہونے والی بارشیں اوسط بارشوں سے ملکی سطح پر 243 فیصد زیادہ شدید تھیں جب کہ صوبہ سندھ میں ان کی شدت اوسط درجے سے 728 فیصد زائد تھی۔ ان بارشوں سے پیدا شدہ سیلابی صورت حال کے باعث پاکستان کی تین کروڑ تیس لاکھ آبادی متاثر ہوئی تھی جب کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئیں، اسی طرح دیہاتی آبادی کی آمدن کا بڑا ذریعہ لاکھوں مویشی پانی کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ اس وسیع پیمانے پر تباہی کے باعث حکومت پاکستان کو عالمی برادری سے مدد کی اپیل کرنا پڑی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ذاتی طور پر پاکستان آ کر سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا اور عالمی برادری کو تباہ شدہ بستیوں کی بحالی کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی اس ضمن میں منعقدہ بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں بہت سے ممالک کی طرف سے مدد کے وعدے بھی کئے گئے ان وعدوں میں سے کتنے وفا ہوئے اس ضمن میں حقائق اہل اقتدار ہی بتا سکتے ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ برس کے متاثرین کی ایک بڑی تعداد اب تک اپنے گھروں میں آباد نہیں ہو سکی۔ ان حالات میں قوم کو ایک بار پھر گزرے برس کی صورت حال کا سامنا ہے جو ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے قائم کئے گئے اداروں اور محکموں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں.... یہ ادارے اگر بروقت اقدامات کر لیں اور شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلابی ریلوں سے بچاﺅ کی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو غریب آبادیوں کو بھاری جانی و مالی نقصانات سے محفوظ رکھنا زیادہ مشکل نہیں مگر اس کے لیے ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں کے ذمہ داران کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا جس کا شدید فقدان محسوس ہو رہا ہے....!!! 

ای پیپر دی نیشن