وزیر اعظم نے ہونہار طالب علم کو تقریب میں اپنی کرسی پر بٹھا دیا
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے ایسے ہونہار طالب علم کی عزت افزائی خوشی کی بات ہے۔ ہمارے ہاں یہی تو نہیں ہوتا۔ پڑھے لکھے ہونہار نوجوان سرکاری رعایت اور مراعات سے محروم رہتے ہیں اور سفارشی نوجوان جو پہلے ہی مراعات یافتہ ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ہونہار نوجوان جو ہمارے مستقبل کے پاسبان ہیں انہوں نے ہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ہم ان کی توقیر کریں گے، ان کی حوصلہ افزائی کریں گے تو کام چلے گا۔ ان میں مزید محنت کر کے آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ نوجوانوں کو سڑکوں پر دھکے کھانے ، پتھراﺅ کرنے ، لاٹھی اٹھا کر بدامنی پھیلانے کی تربیت دینے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ انہیں توتعلیم یافتہ اچھا شہری بنانے کی کوشش کی جائے اور اس کام میں ان کی بھی بھرپور معاونت کی جائے۔ نوجوانوں کا اصل ہتھیار تعلیم ہے، ہنر ہے، لاٹھی یا غلیل نہیں۔ گزشتہ روز کی تقریب میں جس طرح اس نوجوان طالب علم نے نوجوانوں کی آئندہ حکومت چلانے بات کی وہ سو فیصد درست ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کے جذبے کی داد دی۔ اسے گلے سے لگایا اور اپنی کرسی پر بٹھا کر یہ پیغام دیا کہ آئندہ حکمرانی انہی پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ ہو گی۔ خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ اب واقعی
زمین میر و سلطاں سے بیزار ہے
پرانی سیاست گری خوار ہے
خدا کرے ہمارے ہاں بھی موروثی نہیں حقیقی عوامی تعلیم یافتہ خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان مستقبل میں آگے آئیں اور عنان حکومت سنبھالیں۔ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں۔ ملک میں خوشحال لائیں۔
دبئی کے ولی عہد کا 3 ہزار 2 سو پلاٹ عوام میں تقسیم کرنے کا اعلان
بڑا دل جلتا ہے دُکھتا ہے جب ہم دوسرے حکمرانوں کے ایسے اعلانات سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ایک وہ ہیں کہ انہیں ہر وقت عوام کے فلاح کی خدمت کی پڑی رہی ہے۔ وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نظام حکومت سے ہٹ کر ایسی کونسی نعمت ہے جو انہوں نے عوام کو مہیا نہیں کی۔ جمہوریت کو کیا کسی نے چاٹنا ہے۔ جب پیٹ میں روٹی، سر پر چھت اور بدن پر کپڑا نہ ہو تو یہی ہماری جمہوریت دنیا کی سب سے بدترین آمریت سے بھی بری لگتی ہے۔ نظام کوئی بھی ہو عوام کو جو فائدہ دے سہولت دے سکون دے وہی بہتر ہوتا ہے۔ خلیج کے عرب حکمران خوش قسمت ہیں کہ وہاں تیل کی وجہ سے دولت کی ریل پیل ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں مزدور انجینئر، ماہرین وہاں آ کر ملازمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں۔
دبئی تو ویسے ہی جنت ہے۔ جہاں دولت کی ریل پیل ہے۔ اس کے محلات ،تجارتی مراکز اور عمارات لندن، پیرس اور واشنگٹن کی برابری کرتے نظر آتے ہیں۔ اب وہاں کے ولی عہد شہزادہ حمدان نے 3 ہزار 2 سو رہائشی پلاٹ عوام میں تقسیم کرنے کا اعلان کر کے وہاں کے کم وسائل والے شہریوں کا دل جیت لیا ہے۔ وہاں ہماری طرح صرف اعلانات نہیں ہوتے، عملی کام بھی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں سرکاری اراضی اونے پونے داموں کوڑیوں کے حصول منظور نظر تعمیراتی کمپنیوں کو بھاری کمیشن پر لاٹ کی جاتی ہیں جو اس زرعی زمین پر پلاٹ بنا کر کروڑوں میں فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے خوراک کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ دبئی جیسا فلاحی کام ہمارے ہاں ہونا چاہیے تاکہ کم وسیلہ غریب لوگوں کو پلاٹ ملتے جہاں وہ چھوٹا موٹا گھر بنا لیتے۔
پی ٹی آئی دور میں 3 ارب ڈالر قرض کا معاملہ پی اے سی نے بغیر کارروائی کے نمٹا دیا
یہ ہوتا ہے ”ہم خرما وہم ثواب“ خود ہی لوٹو خود ہی کماﺅ مزے اڑاﺅ۔کون ہوتا ہے جو حکمرانوں کے کار سلطنت میں مداخلت کرے۔ کون ہے جو ان کے چیلوں چانٹوں سے حساب طلب کرے۔ یہ معاملہ بڑے شورشرابے کے ساتھ اٹھا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور میں 3 ارب ڈالر جو کوئی معمولی رقم نہیں سٹیٹ بینک نے نہایت فیاضی سے 628 افراد میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی۔ ظاہری بات ہے یہ سب منظور نظر ہوں گے صاحب اقتدار کے پیارے ہونگے جبھی تو نہایت بلاسود انہوں نے بڑی بڑی رقم وصول کی اب حکومت بدلی تو تحقیقات کی کا ڈول ڈالا گیا مگر افسوس تحقیقات کی رسی اس بھاری وزنی ڈول کا بوجھ نہ سہ سکی اور راستے میں ہی ٹوٹ گئی۔اب کوئی کیا کر سکتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے گورنر خاصے تگڑے نکلے انہوں نے نورعالم کی کمیٹی کو اندھیروں کی سیر کرا د ی۔ گورنر سٹیٹ بینک نے اِن کیمرا اجلاس میں بریفنگ کے دوران کہا کہ وہ بینک راز داری کے اصولوں کے تحت بلاسود قرضہ والوں کے نام نہیں بتا سکتے البتہ کمپنیوں کے نام انہوں نے بتا دیئے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یوں وہ ”نہائے دھوے ایسے کہ سب پاک ہو گئے“ اب کون جانے گا کہ وہ بڑے بڑے نام کون سے ہیں؟ کس نے لوٹ مار میں حصہ لیا؟ اور بھرپور فائدہ اٹھایا؟ یہ سب ہنوز پردہ نشین ہی رہیں گے۔ یہی وہ بااثر پردہ نشین ہیں جو ہر دور میں ہر حکومت کے کاسہ لیس ہوتے ہیں اور عیاشی کرتے ہیں۔ ان کا نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ اصول۔ انہیں بس پیسہ چاہیے پیسہ....
بے یقینی کی صورتحال ہے لوگ سوچ رہے ہیں الیکشن ہونگے یا نہیں: شیخ رشید
جب سے شیخ رشید کی پیشن گوئی والی ڈفلی پھٹ گئی ہے اس کے بعد سے ان کا سیاسی تھیٹر بھی ناکام سا ہو گیا ہے۔ کہاں وہ جگہ جگہ چہکتے پھرتے تھے کہاں اب چوری چھپے ان کا کوئی بیان سامنے آتا ہے۔ اس میں وہ بھرپور طریقے سے اپنا نکتہ نظر کم اور وضاحتی بیان زیادہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بڑے ستم کی بات ہے کہ پولیس بھی جگہ جگہ ان کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے مگر وہ بھی بڑے کائیاں ہیں ہاتھ نہیں آرہے کبھی یہاں کبھی وہاں جا کر شب بسری کرتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو پولیس صرف نمبر ٹانگ رہی ہے یا پھر اندر خانے کوئی معاملہ چل رہا ہے ورنہ شیخ جی ایسی کوئی توپ نہیں ہیں کہ ہاتھ نہ آئیں۔ ہاں البتہ مراد سعید کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ پولیس کی بھرپور کوشش کے باوجود ہاتھ نہیں آسکے اور ابھی تک کسی حجرے میں محفوظ ہیں۔ دروغ بر گردن راوی وہ افغانستان میں پناہ گزین ہیں مگر یقین نہیں آتا انہیں یہاں ہی بہت سے پناہ دینے والے مل سکتے ہیں۔ خیبر پی کے میں بڑے بڑے اہل دل اور پی ٹی آئی سے محبت کرنے والے موجود ہیں مگر وہ بھی شیخ رشید کی طرح ہاتھ نہیں آرہے انہیں بھی ڈر ہے کہیں ان کا بھی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہ کر دیا جائے ا ور وہ بھی پریس کانفرنس کرتے نظر آئیں۔ تادم تحریر اطلاعات ایسی ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی بھی اس ناحق مشق ستم سے تھک گئے ہیں۔ وہ بھی نڈھال نڈھال سے لگ رہے ہیں شاید جلد ہی وہ بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں یا پی ٹی آئی سے ناطے توڑ دیں ویسے بھی وڈھے چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ ان کے لئے ق لیگ کے دروازے کھلے ہیں دیکھنا ہے وہ کب تک تشریف لا کرتے ہیں۔