بلوچستان کی ڈائری … قومی افق …
فیصل ادریس بٹ
گزشتہ دنوں بلوچستان میں بلدیاتی یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کے انتخاب کا مرحلہ بھی خیر و خوبی سے انجام پایا۔ مجموعی طور پر بلوچستان میں کامیابی کا سہرا بی اے پی (باپ) بلوچستان عوامی پارٹی کے سر رہا۔ دوسرے نمبر پر حیران کن طور پر پاکستان پیپلزپارٹی رہی اور تیسری پوزیشن جمعیت علماء اسلام کے حصے میں آئی۔ بی اے پی چیئرمینوں اور ڈپٹی چیئرمینوں کی کامیابی کے ساتھ نمایاں بن کر ابھری ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کی عوام اب اِدھر اْدھر کی سیاست میں منفی نعرے بازی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ سیاست میں بلدیاتی الیکشن اور کونسلر بنیادی طور پر نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے دنیا بھر میں مقامی سطح کے ان الیکشنوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے یہی لوگ گلی محلے اور سڑکوں، نالیوں، آپ نوشی اور نکاسی آب کے علاوہ بجلی و گیس کی فراہمی کے ساتھ باہمی چھوٹے موٹے تنازعات کے حل میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں یہ الیکشن بھی زبان، قومیت اور مسلکی بنیادوں پر لڑے جاتے رہے ہیں جس سے صوبے کے عوام کی سوچ میں تاحال یکسوئی دکھائی نہیں دیتی ۔ اب بی اے پی کی بدولت جہاں حکومت میں مختلف الخیال، مختلف قومیت سے مسالک سے تعلق رکھنے والے سیاسی، سماجی رہنما شامل ہیں اب یہ شدت پسندی کم ہونے لگی ہے ویسے تو جمعیت علمائے اسلام اور پیپلزپارٹی بھی موجود صوبائی حکومت کے حلیفوں میں شامل ہے اس حساب سے دیکھا جائے تو ان بلدیاتی چیئرمینوں کے الیکشن میں صوبائی حکومت نے مکمل کلین سویپ کیا ہے چونکہ بلوچستان کا بڑا علاقہ حب تا ڈیرہ مراد جمالی سندھ کے ساتھ لگتا ہے جہاں بلوچ آباد ہیں اور یہاں قدرتی طور پر سندھ سے قربت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا اثر و رسوخ بھی اس الیکشن میں نظر آیا اور اس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پشتو بولنے والے علاقے میں جے یو آئی نے اپنی موجودگی تو ظاہر کی مگر دیگر قوم پرست جماعتوں نے انہیں کھلا میدان نہیں دیا ایسا ہی بی اے پی کے ساتھ بھی ہوا جہاں قلات تا گوادر قوم پرست جماعتوں نے مقابلہ کر کے اپنی موجودگی ظاہر کی تاہم گوادر کے علاقے میں ’’حق دو‘‘ تحریک نے بازی جیت لی۔ اس کے باوجود وہ حکومت بلوچستان اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے لئے یہ کامیابی بڑے اطمینان کی بات ہے کہ ان کی جماعت بلدیاتی چیئرمینوں کی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
بلوچستان جیسے حساس علاقے میں جہاں قوم پرستی اور مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی کا خطرہ رہتا ہے ملک دشمن عناصر اپنے غیر ملکی آقاؤں کے کہنے پر بے گناہ عوام اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ پْرامن الیکشن اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں کے عوام کی اکثریت محب وطن ہے وہ دہشت گردی اور اپنے جوانوں پر حملے کرنے والے گمراہ عناصر سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس مثبت سوچ کی وجہ سے ہی اس انتخابی عمل میں دیکھ لیں منفی سیاست کو فروغ دینے والی جماعت پی ٹی آئی کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی خود کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت سمجھ رہی ہے مگر 9 مئی کے المناک واقعات کے بعد اب عوام کے دلوں میں اس سے محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک جو جماعت بلوچستان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے کے دعوے کرتی پھرتی تھی آج بلوچستان میں اس کا جھنڈا اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ملتا۔ چیئرمین یونین کونسل کے انتخابی عمل میں اسے کہیں سے بھی ایک نشست حاصل نہ ہو سکی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور ان کی صوبائی کابینہ کے ساتھ بلوچستان کی صوبائی انتظامیہ بھی مبارک باد کی مستحق ہے کہ ان کی غیر معمولی دلچسپی اور عمدہ کارکردگی کی بدولت یہ معرکہ انجام کو پہنچا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان وزیر بلدیاتی و سیکرٹری بلدیات نے یہ کام مکمل کرنے میں دن رات محنت کی جس میں انہیں الیکشن کمشن اور پولنگ سٹاف کے علاوہ سکیورٹی حکام و پولیس کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ لگے ہاتھوں گلگت، بلتستان پر بھی نظر ڈالیں تو وہاں بھی سیاسی صورتحال مکمل تبدیل ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت، بلتستان کے خلاف جعلی ڈگری کیس میں فیصلہ آنے کے بعد ان کا اقتدار ختم ہوا ہے اور وہاں نئے وزیراعلیٰ کی تلاش جاری ہے۔ پیپلز پارٹی مخمصے کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بن چکا ہے۔ یہ متحد ہوں تو حکومت بن سکتی ہے۔ جھگڑا وزیر اعلیٰ کے نام پر ہے۔ اس ساری صورتحال میں وہاں افضل بٹ کو نیا آئی جی بنایا جا چکا ہے۔ انتظامی طور پر صورتحال کنٹرول میں کرنے پر اور حالات بہتر بنانے میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے جس جانفشانی سے کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ان کی اعلیٰ کارکردگی اور موثر حکمت عملی کی وجہ سے ابھی تک وہاں حالات پرامن ہیں۔ سیاسی جنگ میںوہاں پر امن ماحول رکھا ہوا ہے۔ ورنہ ایسے حالات میں شرپسند عناصر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کی دانشمندی اور موثر انتظامی اقدامات کی بدولت ابھی تک اس حساس خطہ میں کوئی منفی ردعمل سامنے نہیں آیا جو قابل تعریف ہے۔ محی الدین وانی نے بطور چیف سیکرٹری ثابت کیا ہے کہ صوبے میں انتظامی افسر کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے صوبہ نا صرف امن کا گہوارہ بن سکتا ہے بلکہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سیاحت کو فروغ دیکر معیشت کی بحالی میں بھی کردار ادا کیا جاسکتا ہے محی الدین وانی نے گلگت بلتستان کی حسین وادیوں کو انتہائی محنت سے سیاحوں کو متعارف کروایا ہے۔