اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس چیئرمین ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں تحریک انصاف کے نمائندے علی ظفر نے شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں 73 انتخابی تجاویز زیر غور آئیں۔ مجوزہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پہلے پارلیمنٹ جائزہ لے کہ سیاسی جماعت پر پابندی لگنی چاہئے یا نہیں۔ پارلیمنٹ سیاسی جماعت پر پابندی لگانے پر متففق ہو تو معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے۔ پریذائیڈنگ افسر کو نتیجہ مرتب کرنے کیلئے مخصوص وقت دینے کی تجویز ہے۔ نتائج مرتب کرنے میں تاخیر پر پریذائیڈنگ افسر کو جوابدہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ پریذائیڈنگ افسر انتخابی نتائج کی تاخیر پر ٹھوس وجہ بتانے کا پابند ہوگا۔ پریذائیڈنگ افسر دستخط شدہ نتیجے کی تصویر ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا۔ پریڈائیڈنگ افسر کو تیز ترین انٹرنیٹ اور سمارٹ فون دینے کی بھی تجویز ہے۔ پولنگ ایجنٹ کو بھی کیمرے والا فون ساتھ لے جانے کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔ پولنگ سٹیشن کے ہر بوتھ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بھی تجویز ہے۔ شکایت کی صورت میں کیمروں کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کی جا سکے گی۔ امیدوار بھی قیمت ادا کرکے پولنگ سٹیشن کی ویڈیو حاصل کر سکے گا۔ قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک اخراجات کی حد مقرر کرنے کی بھی تجویز ہے۔ صوبائی نشست کیلئے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔ چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی ایاز صادق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی سفارشات کو آئندہ ہفتے حتمی شکل دی جائے گی۔ انتخابی اصلاحات کی مجوزہ تجاویز پر بحث ہوگی۔ شفاف انتخابات کیلئے مؤثر تجاویز کو زیرغور لایا گیا۔ سیاسی جماعت پر پابندی سے متعلق کوئی تجویز زیرغور نہیں۔