ڈاکٹر فضہ خان
500 ملین ڈالر کی ابتدائی بیرونی
سرمایہ کاری سے شروع ہونے والا گرین پاکستان انیشیٹو(initiative )معاشی استحکام کا ضامن اور زرعی انقلاب کی نوید ہے۔ ایوب خان سے شہباز شریف تک سبز انقلاب سبھی کا خواب رہا ہے لیکن اس کی تعبیر کا سہرا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سر ہے اور یہ بنیادی طور پر انہی کا انیشیٹو(initiative)ہے. اسے المیہ ہی کہیں گے کہ اناج کی کمی کے شکار پاکستان کی 9.4 ملین ہیکٹرز قابل کاشت زمین بنجر پڑی ہے۔ سب سے زیادہ زمین 87۔4 ملین ہیکٹرز بلوچستان میں ہے۔جبکہ پنجاب 1.74 ملین، سندھ 1.45 ملین ہیکٹرز اور خیبر پختون خواہ میں1.08 ملین ہیکٹرز اراضی پر کوئی فصل کاشت نہیں ہوتی. ایک طرف سونا اگلنے والی 90 لاکھ ایکڑ اراضی حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث بنجر جبکہ دوسری طرف پاکستان کو 10 ارب ڈالر کی زرعی امپورٹس کا ناقابل برداشت بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہمیں ہر سال 10 لاکھ ٹن گندم کی قلت کا سامنا ہوتا ہے اسی طرح ہماری آمدن کے بڑے ذریعے کپاس کی پیداوار میں 40 فیصد کمی ہوئی۔ اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں باہر سے منگوانا پڑ رہا ہے۔ زراعت ہماری جی ڈی پی کا 23 فیصد اور اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے لیکن یہ شعبہ بری طرح نظر انداز ہے۔ آرمی چیف نے بنجر زمینوں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدلنے کا جو مشن شروع کیا ہے وہ ملک کی ضرورت اور قوم کی خوشحالی کا راستہ ہے اس پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اس منصوبے بارے بیجا خدشات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے چھوٹے کسان بے روزگار ہو جائیں گے۔ ان سے زمینیں چھین لی جائیں گی۔ اتنے بڑے منصوبے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟ آمدن کا 50 فیصد غیر ملکی سرمایہ کار لے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ پہلی بات یہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ سرکاری اراضی بنجر پڑی ہے اسی پر کارپوریٹ فارمنگ ہوگی۔ کسانوں کے بے روزگار ہونے کا سوال کہاں ہے۔ جہاں تک پانی کی فراہمی کا معاملہ ہے پاکستان میں پانی بہت ہے۔ہر سال بارشوں میں آدھا پاکستان ڈوب جاتا ہے جب یہ منصوبہ شروع ہوگا تو پانی کا انتظام بھی ہو جائے گا۔زیر زمین پانی بھی بکثرت ہے۔ حکومت متعلقہ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر اس مسئلے پر قابو پا لے گی۔
فوج کی مدد سے حکومت نے ملک کو سرسبز بنانے کا انقلابی قدم اٹھا ہی لیا ہے تو ساتھ ہی جاگیرداری سسٹم کے ناسور کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ صرف وہی زمینیں جاگیرداروں کے زیر قبضہ رہیں جو کاشت ہو رہی ہوں اور ان کی بھی تعداد مقرر کی جائے اس سے اوپر زمینیں بے زمین ہاریوں میں تقسیم کر دی جائیں۔اس سے بنجر زمینیں آباد اور اجناس کی قلت دور ہو جائے گی۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک شخص کے پاس دفن ہونے کے لیے زمین نہیں اور دوسرے کی زمینوں کی کوئی حد نہیں۔ بھارت نے جاگیردارانہ سسٹم ختم کر کے زرعی خود کفالت کی منزل حاصل کی۔ ہمیں بھی جاگیریں بانٹ کر ماضی کی غلطی کا ازالہ کرنا چاہیے۔
اب جب کہ حکومت اورفوج کی مشترکہ کوششوں سے معیشت سنبھل رہی ہے، کاروبار میں ترقی، مافیاز پسپا، مہنگائی کا جن قابو میں ہے، سٹاک ایکسچینج میں تاریخی تیزی اور بھاری بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی کے اس تسلسل کو بریک نہ لگنے دی جائے۔ موجودہ حکومت کو پچھلی حکومت کی قومی تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسیاں جاری رکھنا چاہیے۔ زراعت ہماری جی ڈی پی کا 23 فیصد اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے جڑا ہے اس میں لگی 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کو 50 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے۔ بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہوگی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کالا باغ اور بھاشا ڈیم کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ اس سلسلے میں سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ فوج ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے۔اس لئے اسے ملکی ضرورت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے فوری کام کرنا ہوگا۔ تاخیرقوم کے لئے نقصان دہ ہوگی۔