حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں

ڈاکٹر مقصود جعفری

رسالتمآب، سرورِ کائنات کا ارشادِ مبارک ہے ”حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں“اِس حدیثِ مبارکہ کے سادہ الفاظ میں معنی یہ ہیں کہ حسین میرا نواسہ ہے اِس لیے یہ مجھ سے ہو اور چونکہ یہ قباءخونیں پہن کر دینِ الٰہی کے لیے قربان ہو کر تاقیامت اِس دین کی بقا کا ضامن ہو گا اور میرے دینی مشن کو زندہ و تابندہ بنا دے گا اِس لیے میں محمد حسین میں سے ہوں۔ اِسی رمز کو حضرت معین الدین چشتی یوں بیان کرتے ہیں
شاہ است حسینؑ، بادشاہ است حسینؑ
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد و نداد دست درِ دستِ یزید 
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین
جب ملکِ شام میں خلافت کا خاتمہ کر کے ملوکیّت کا پودا سینے اسلام پر لگایا گیا اور نواسہ رسول سے بیعت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا” کیا مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت کرے گا”۔ مطلب یہ تھا کہ کیا امامِ وقت، نواسہ رسول اور صاحبِ تقویٰ ایک شرابی، بدقماش، زانی اور لادین کی بیعت کرے گا؟ جو بد باطن معرکہ کربلا کو دو شہزادوں کی حصولِ حکومت کی جنگ کہتے ہیں یا تو انہیں تفہیمِ دین نہیں یا وہ دشمنِ آلِ رسول ہیں۔ ابوالکلام آزاد اپنی کتاب “ الحسین” میں ابنِ زیاد کو سانحہ کربلا کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور یزید کو شہادتِ امام حسین سے لاتعلق قرار دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ کیسے امام حسین کے دندانِ مبارک پر وہ مردود و ملعون چھڑی مارتا ہے اور یہ شعر پڑھتا ہے
لعبت بنی ہاشم للملک فلا 
وحی جاﺅ ملک نزل” 
مطلب:بنی ہاشم نے حکومت کے حصول کے لیے ڈھونگ رچایا تھا۔نہ ہی کوئی وحی آئی اور نہ ہی کوئی فرشتہ نازل ہوا۔ علاوہ ازیں وہ دیگر اشعار میں کہتا ہے کہ آج جنگِ بدر اور جنگِ احد میں قتل ہونے والے میرے اجداد آ کر دیکھیں کہ میں نے محمد کی اولاد سے تمہارے قتل کا بدلہ لے لیا ہے۔ کیا یزید کے اِن عقائد کے بعد کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمود احمد عباسی” خلافتِ معاویہ و یزید”جیسی بدنامِ زمانہ کتاب لکھے؟ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امامِ حسین سے اجتہادی غلطی ہوئی۔ جب اصحابِ کبائر کے فرزندوں نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام حسین بھی کر لیتے۔ مولانا مودودی نے ایک تاریخی جملہ کہا ہے۔ “ سوال یہ نہیں کہ دوسروں نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو حسین نے کیوں نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جب حسین نے یزید کی بیعت نہیں کی تو دوسروں نے یزید کی بیعت کیوں کی”۔ در اصل فتحِ مکہ کے بعد بیشتر منافقین و مشرکین جان بخشی کے لیے بظاہر مسلمان ہو گئے اور اسلام کی جڑوں پر وار کرنے لگے۔ امام حسین اور یزید کے درمیان جنگ خلافت اور ملوکیّت کے درمیان جنگ تھی۔ عرب ممالک میں آج بھی یزید کا نظامِ ملوکیّت قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا سے لے کر آج تک اِن ممالک میں ذکرِ حسین? پر پابندی ہے۔ اِس سلسلہ میں مولانا مودودی کی کتاب” خلافت و ملوکیّت” اور مولانا کوثر نیازی کی کتاب” ذکرِ حسین” کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ 
 معرکہ کربلا کا مقصد امامِ عالیمقام کے خطہبہ یومِ عاشورہ سے واضع ہوتا ہے۔ آپ فوجِ اشقیائ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔” ان کان دینِ محمد لم یستقم الا بقتلی، یسیوف خذینی”۔ یعنی اگر میرے قتل کے بغیر دینِ محمد قائم نہیں ہو سکتا تو اے تلوارو لپکو اور میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ معرکہ کربلا حق و باطل کا معرکہ تھاجس کا اعلان قرآنِ مجید میں ہو چکا تھا۔ جب حضرتِ ابراہیم علیہ السلام اپنے امتحان میں کامیاب ہو گئے تو اللہ پاک نے سورہ الصفات اعلان کیا۔” و فدیناہ بذبح عظیم و ترکنا علیہ فی الاخرین” ۔ ہم نے اس قربانی کا فدیہ بڑی قربانی میں رکھ دیا اور اسے آخرین کے لیے مقرر کر دیا۔ گویا حضرتِ اسماعیل کی قربانی کا فدیہ حضرتِ امام حسین مقرر ہوا ۔ اِس قربانی کو ممیّز کرنے کے لیے حضرتِ اسحاق کی نسل سے انبیائ پیدا ہو۔حضرتِ یعقوب،حضرتِ یوسف اور کئی دیگر انبیا لیکن حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے مرتب نبوت و رسالت پر سوائے خاتم النبیین کے کوئی پیدا نہ ہوا۔ آخر اس میں کیا راز تھا؟ یہ بتانا مقصود تھا کہ حضرتِ اسماعیل کی قربانی “آخرین “ میں آخری نبی حضرتِ محمدکے گھرانے میں رکھی گئی ہے۔علامہ اقبال نے اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا
اللہ اللہ بابسم اللہ پدر 
معنءذبحِ عظیم آمد پسر
اِس ذبحِ عظیم کے اہمیّت اور مقاصد کو علامہ اقبال نے خوب بیان کیا ہے۔ “رموزِ بیخودی” میں آپ نے “ در معنءحریّت اسلامیہ و حادثہ کربلا” لاجواب اشعار لکھے ہیں ۔ کہتے ہیں
نقشِ الللہ بر صحرا نوشت 
سطرِ عنوانِ نجاتِ ما نوشت 
تا قیامت قطعِ استبداد کرد 
موجِ خونِ او چمن ایجاد کر 
بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است 
پس بنا? لااللہ گردیدہ است
مدعایش سلطنت بودے اگر 
خود نکردے با چنیں ساماں سفر
رمزِ قرآں از حسین آموختیم 
ز آتشِ او شعلہ پا اندوختیم 
علامہ اقبال نے اِن اشعار میں شہادتِ امام حسین ؑکے مقاصدِ جلیلہ بالصراحت بیان کر دیے ہیں۔ یہ معرکہ قیامِ دین اور بقائے آزادی وانسانیّت کا معرکہ تھا۔یہ دو شہزادوں کے درمیان اقتدار کی جنگ نہیں تھی ۔ یہ خلافت و ملوکیّت اور حق و باطل کا مناقشہ ومعرکہ تھا۔ شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی نے بجا کہا تھا
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ای پیپر دی نیشن