حکومتی کارگردگی اور آئی ایم ایف 

Jul 13, 2024

اورنگزیب اعوان

بے نقاب  اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com 

موجودہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بڑی کاوش کر رہی ہے. مگر عالمی اقتصادی ادارے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے آگے اس کی تمام کاوشیں رائیگاں جا رہی ہیں. بجلی کے بلوں میں روز بہ روز اضافہ سے عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے. دو وقت کی روٹی کھانا اس کے لیے محال ہے. اوپر سے بجلی کے بڑھتے نرخوں نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے. پاکستان میں گرم موسم بھی اپنے عروج پر ہے. غریب آدمی اس گرم موسم سے بچنے کے لیے پنکھے کا استعمال کرتا ہے. جس کی مد میں اسے ہزاروں روپے کا بل آ جاتا ہے. اتنی اس کی آمدن نہیں جتنا بل ہوتا ہے. ایسے میں وہ کیا کرے. اسی سبب ملک میں خودکشی کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے. اسی طرح سے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے. آئی ایم ایف قرض دیتے وقت اس کو سود سمیت واپس لینے کے لیے سخت ترین شرائط بھی لاگو کرتا ہے. جن کو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے. بجلی اور پیڑول کے نرخوں میں معمولی سے اضافہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. عام آدمی کی قوت خرید بھی متاثر ہوتی ہے. صنعتوں کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے. پاکستان میں آئے روز بجلی کے نرخوں میں اضافہ سے ستائے ہوئے صنعت کار دوسرے ممالک میں صنعتیں لگا رہے ہیں. بنگلہ دیش اس ضمن میں سر فہرست ہے. بنگلہ دیشی حکومت صنعت کاروں کو مفت بجلی فراہم کر رہی ہے. دنیا بھر کے صنعت کار یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں. ہماری حکومت پچھلے پچہتر سالوں سے غیر ملکی قرضوں کا رونا رو رہی ہے. کاش ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا انقلابی لیڈر آئے. جو ملک پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی دلدل سے نکال باہر کرے. عام آدمی کے ذرائع آمدن اتنے نہیں. جس شرح سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے. ذرائع آمدن اور قوت خرید کے فرق نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں. چوری ڈکیٹی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. لوگ مرنے سے نہیں ڈرتے. وہ کہتے ہیں. بھوک سے مرنے سے بہتر ہے. بندہ پولیس کی گولی سے مر جائے. آئی ایم ایف کو لوگوں کی زندگیوں سے کچھ لینا دینا نہیں. اسے تو اپنے قرض کی واپسی سے غرض ہے. وہ بھی سود سمیت. آئی ایم ایف پروگرام انتہائی ظالمانہ ہوتا ہے. اس کے پروگرام سے ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو کر رہ جاتا ہے. حکومت وقت کی پہلی ترجیح اس کے چنگل سے نجات حاصل کرنا ہونا چاہیے. ورنہ حکومت کی تمام کی تمام کارگردگی صفر ہو کر رہ جائے گی. عوام نے نہیں دیکھنا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ دن رات جاگ کر ان کی خدمت کر رہے ہیں. انہوں نے تو دیکھنا ہے کہ ان کی زندگیوں میں آسانیاں کون پیدا کرتا ہے غریب آدمی کو پیٹ بھر کر کھانے کو روٹی نہیں مل رہی. روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں. نوجوان پڑھ لکھ کر ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے پھر رہے ہیں. پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت بیرون ملک روزگار کمانے جا رہی ہے. نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. پاکستان دنیا کا خوش قسمت ترین ملک ہے. جس کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہیں. مگر مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا. جس کی وجہ سے ملک ترقی کے راستہ پر گامزن نہیں ہو رہا. زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم و دیگر اجناس بیرون ممالک سے منگوا رہے ہیں. یہ ہماری بدقسمتی ہے. ہم نے برائے نام آزادی تو حاصل کر لی. مگر عملی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں. ہماری غلامی کی علامت غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے. جس کے تلے ہم اس قدر دب چکے ہیں. کہ ہم اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے. ایسی نام نہاد آزادی کا کیا فائدہ. جس میں ہم اپنی منشا سے مر بھی نہیں سکتے. عام آدمی تو روکھی سوکھی روٹی کھا کر گزر بسر کرتا ہے. پتہ نہیں یہ بیرونی قرضہ کس مد میں لیا جاتا ہے. اس سے کون عیاشی کرتا ہے. اگر یہ قرضہ عوام کی فلاح بہبود کے لیے لیا جاتا ہے. تو پھر اس کی حالت زار کیوں نہیں بدلتی. کیا یہ قرض اشرافیہ کی عیاشی کے لیے لیا جاتا ہے جو عالی شان بنگلوں اور قمیتی گاڑیوں میں گھومتے ہیں. جس دن حکومت وقت نے اپنی ترجیحات کا تعین کر لیا. اور آئی ایم ایف کے ظالمانہ چنگل سے نجات کا پختہ ارادہ کر لیا. اسی دن ملک و قوم کی تقدیر بدل جانی ہے. آئی ایم ایف کو قرض دیتے وقت ملکوں کے معاشی حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے. سبھی ممالک ایک جیسے نہیں ہوتے. مگر شاید اس نے قرض دینے کے لیے ایک جیسی شرائط تحریر کر رکھی ہیں. جو سب کے سامنے رکھ دی جاتیں ہیں. یہ دیکھنے بنا کہ وہ ان سخت ترین شرائط پر عمل درآمد کیسے کرے گا. مجبور اور لاچار کے پاس سوائے شرائط کو تسلیم کرنے کے کوئی اور چارہ نہیں ہوتا. آئی ایم ایف غریب ممالک کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے. دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں اس مالیاتی ادارے کا کلیدی کردار ہے. ملک پاکستان کو جلد از جلد اس کے چنگل سے نکلنا ہو گا. ہمیں اپنی ترجیحات کو درست سمت پر ڈالنا ہوگا. فضول کی عیاشیاں ترک کرنا ہوگی. تبھی ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو پائے گے. عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا. رشوت ستانی، سفارش، بددیانتی، فضول خرچی جیسی لعنتوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی. عوام اور حکومت کے تعاون سے ہی آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا جاسکتا ہے. آئیں مل کر عہد کرے. کہ اس لعنت سے جتنی جلدی ممکن ہو سکے نجات حاصل کرے. 
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہوگیا 
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا

مزیدخبریں