کچھ پتہ نہیں حکومت کے ساتھ کتنا چلیں گے، ہم حکومت سے خوش نہیں : نبیل گبول۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مرکز میں اتحادی ہیں بھی اور نہیں بھی۔ پیپلز پارٹی ساتھ نہ دیتی تو مرکز میں ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔پیپلز پارٹی نے کہا تھا حکومت بنانے میں ساتھ دیں گے حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پیپلز پارٹی دعویدار ہے کہ وہ حکومت میں حصہ داریا شامل نہیں ہے۔ صدر پاکستان اور دو گورنرز اس پارٹی کے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے حصے کی پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی بھی ان کو دے دی مگر یہ پارٹی حکومت میں حصے دار نہیں ہے۔کئی لیگی کہتے ہیں ایسے نہیں چلے گا۔ پھر کیسے چلے گا؟۔ عرفان صدیقی صاحب نے کہا کہ غلبے میں شامل ہیں تو ملبے میں بھی حصہ دار بنیں۔ اس سے زیادہ کیا غلبہ ہوگا کہ پاکستان کا سب سے بڑا آئینی عہدہ صدر پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ ہے۔پیپلز پارٹی کے لیڈر برملا کہتے ہیں کہ یہ حکومت اس کی مدد اور سیٹوں کے سہارے چل رہی ہے۔ پی پی پی ہاتھ کھینچ لے تو حکومت گر سکتی ہے۔ حکومت گرے گی تو پیپلز پارٹی پر بھی ملبہ پڑے گا۔ مسلم لیگ ن پی پی کو وزارتوں کی آفر کرتی رہتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں تو کئی ان کے پاس ہیں۔ تقرریوں، پوسٹنگوں، ترقیوں اورفنڈز میں بھی حصہ بانٹ لیتی ہے۔ پی پی حمایت سے ہاتھ کھینچے گی تو اسے بہت سی مراعات اور عہدوں سے تہی دست ہونا پڑے گا۔ سندھ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نبیل گبول بڑے ماہر سیاستدان ہیں۔ سیاست میں وسیع و عریض تجربہ رکھتے ہیں سرکاری اورسکیورٹی اداروں کے لوگ تربیتی و تجرباتی کورسز کے لیے بیرون ممالک جاتے ہیں۔نبیل گبول سیاست میں ذائقہ تبدیل کرنے یا تجربہ حاصل کرنے کیلئے ایم کیو ایم میں چلے گئے تھے۔ یہ حکومت سے خوش نہیں۔ حکومت کیا کرے کہ یہ خوش ہو جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی پارٹی اتنی مراعات پر خوش ہو مگر کانوں تک خوش نہ ہو اس لیے کہہ دیا کہ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کی رہنماو¿ں کو متحد اور احتجاج کے لیے تیار رہنے کی ہدایت۔
خان صاحب کو جیل میں اگلے ماہ ایک برس مکمل ہو جائے گا۔ ان کے ساتھ وکلا، عزیز رشتے دار اور پارٹی لیڈر ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ کئی لیڈر اس لیے بھی پارٹی سے ناراض ہو گئے کہ خان صاحب سے ملاقات نہیں کرائی جاتی۔ دو تین روز قبل پی ٹی آئی کے لیڈروں کے دو گروپ ملاقات کے لیے گئے۔ ملاقات نہ ہو سکی۔ اگر ملاقات ہو جاتی تو ایک دوسرے سے نکتہ نظر کی مخالفت دھینگا مشتی میں بدل سکتی تھی۔ اس طرح ملاقات کے لیے جانے سے یہ تو واضح ہو گیا کہ پارٹی میں دھڑے بندی ہے۔ اب جو گروپ خان صاحب سے ملتا ہے وہ دوسرے کی شکایتیں کرتا، چغلیاں لگاتا اور غیبتیں کھاتا ہے۔ خان صاحب انکو کو متحد اور احتجاج کی تیاری کا کہہ رہے ہیں۔ کارکنوں کی اکثریت تو پسلیاں سینک رہی ہے۔ لیڈر کریں احتجاج کی تیاری۔ یہ کتنا بھرپور احتجاج کریں گے؟ ملاقات کے دوران اپنے لیڈر کو مشورہ دیا کہ بھوک ہڑتال نہ کریں اس سے جیل میں صحت متاثر ہو گی۔ یہ مشورہ اپنی ہمت دیکھ کر دیا گیا ہوگا۔ گنڈا پور جیسے جوشیلے لیڈر کندھے پر لاٹھی اور ہاتھ میں گنڈاسا پکڑ کر کہتے ہیں خان نے بھوک ہڑتال کی تو سارا پاکستان کرے گا۔ سارا پاکستان سے ان کا مطلب پی ٹی آئی کے لوگ ہی ہیں۔ چوری کھانے والے میاں مٹھو کیسے اپنے لیڈر کی پیروی کرتے ہوئے چوری سے محروم ہونا چاہیں گے۔عظمیٰ بخاری نے خان صاحب کے بارے میں کہا ہے کہ دیسی گھی میں بکرے اور دیسی مرغ کھانے والا بھوک ہڑتال نہیں کرسکتا۔
جہاز کے لینڈنگ گیئر میں آگ لگ گئی.
یہ غیر ملکی ایئر لائنز کا جہاز تھا جس کے لینڈنگ گیئر یعنی ٹائر والی جگہ پر اس وقت آگ لگی جب جہاز نے ابھی لینڈ کیا ہی تھا مگر اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ اس طرح اچانک آگ کئی اداروں کے ریکارڈ کو سال دو سال بعد لگتی رہتی ہے۔ ایسا ریکارڈ جو حکام کے لیے کسی وقت بھی درد سر بن سکتا ہو،ایسے ریکارڈ کو آگ نہ لگے تو کبھی چوہے کتر جاتے ہیں، کبھی سینک لگ جاتی اور کبھی دیمک چاٹ جاتی ہے۔جہازوں کے لینڈنگ گیئر کے استعمال پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کا تو سب کو پتہ ہے مگر ان کو جس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے وہ کبھی حیران کن اور پریشان کن بھی ہو جاتا ہے۔کئی مسافر اس میں چھپ کر دوسرے ممالک جانے کی کامیاب کوشش کر چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر 200 نے یہ تجربہ کیا تو ان میں سے تین چار ہی زندہ سلامت منزل مقصود تک پہنچ سکے۔ جہاز اوپر کی ہوا میں جاتا ہے تو آکسیجن ختم، پر لے درجے کی سردی اور ہوا کا دباو¿ جس سے چور مسافر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ لینڈنگ گیئر کھلتا ہے تو کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا۔ جو زندہ چند ایک بچے وہی بچے جن کی پرواز کا دورانیہ مختصر تھا۔ ان میں سے بھی کوئی بہرا ہو گیا کوئی اندھا ہو گیا۔ ایسے ایڈونچر کا کیا فائدہ؟
ملک بھرمیں نکاح رجسٹر ختم، نیا نظام متعارف کرا دیا گیا۔
یہ کسی نے پورے دو سال قبل چھوڑی تھی۔ایسے چھوڑنے والے اس سے بھی لمبی لمبی چھوڑتے ہیں۔اب کسی نے اسے ری فائن کئے بغیر پھر دہرا دیا۔پہلی دفعہ سننے والے اسے دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کسی کے من میں اصلاح معاشرہ کی دھن سمائی ہو۔ یہ معاشرے کے ایسے ہی خیر خواہ ہیں جیسے ایک لدھی نے اپنے مالک کے ناک سے مکھی اڑانے کے لیے ڈھیلا دے مارا تھا۔کہا جارہاہے کہ کسی ایک صوبے میں نہیں بلکہ ملک بھرمیں نکاح رجسٹرڈ کرنے والے ختم کر دیئے جائیں گے۔ ان سے نکاح نامے کے پرت یعنی رجسٹر واپس لے لیے جائیں گے۔اس کی جگہ ایک ٹیب متعارف کی جائے گی ، امام مسجد کو لوکل گورنمنٹ ایک ماہ کا کورس کروائے گی۔ کورس بھی شاید یوکے میں ہوگا۔ٹیب پے نکاح خواں کا اکاونٹ بنایا جائیگا۔اس میں نکاح کی فیس نکاح خواں جمع کروائے گا۔پتہ نہیں اس نے فیس اپنی جیب سے جمع کروانی ہے، لڑکی والے سے لینی ہے یا لڑکے والے سے؟ گواہان کے شناختی کارڈ پہلے سکین ہوں گے پھربائیو میٹرک کے بعد اگر شناختی کارڈ کی سکینگ اور انگوٹھے کے نشان میچ ہوئے تو گواہ قابل قبول ہوگا۔دلہا کی تصویر بھی مولوی کھینچیں گے۔اگر دلہا مفرور ہوایا کسی مقدمے میں اشتہاری یا ٹیکس چور ہوا تو دلہا کو موقع پر گرفتار کر لیا جائیگا کیونکہ ٹیب کا تصویری رابطہ نادرا سے منسلک ہوگا۔اس نظام کا صرف نکاح خواں کو پتہ ہوگا یا خبر دینے والے کو، دولہا جنگل اجاڑ سے آئے گا وہ شادی کے لیے نہیں جیل جانے اور موت کے منہ میں سر دینے آئے گا؟خبر نگار نے یہ نہیں بتایا کہ جس علاقے میں مولوی نہیں ہوگا وہاں کا دولہا اور دلہن وفاقی دارالحکومت میں جا کے نکاح کریں گے ؟۔افواہ میں مزید کہا گیا ہے۔اگر ایک نکاح کی فیس جمع نہ کروائی تو دوسرا نکاح درج نہیں ہوسکتا، امام مسجد کی سم کے ذریعے پیسے لوکل گورنمنٹ کے اکاونٹ میں منتقل ہوں گے۔نکاح خوان کی خدمات قوم و ملک دولہا اور دلہن کے لیے فی سبیل اللہ ہوں گی؟ بارات کی روٹی بھی نکاح خواں کے کھاتے میں ڈال دی جائے تو خبر میں مزید چاشنی پیدا ہو سکتی ہے۔